عمران خان گرفتاری، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

411

اسلام آباد: ہائی کورٹ کے احاطے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے کیس میں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے مقدمات کے سلسلے میں کیس کی سماعت کے موقع پر اچانک شور شرابہ سن کر حالات سے متعلق استفسار کیا، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس نے بھی یہ کیا ہے، غلط کام کیا ہے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو کہا کہ آدھا گھنٹہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے علم میں آیا ہے کہ یہاں کے شیشے توڑے گئے ہیں، مجھے کارروائی کرنی پڑی تو وزرا اور وزیراعظم کے خلاف بھی کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس، وکلا اور عملے کو رینجرز نے مارا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے؟ فوراً بتایا جائے۔ بعد ازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، سیکرٹری داخلہ کو 15 منٹ میں طلب کرلیا۔

عدالت میں عمران خان کے وکیل اور دیگر کی جانب سے عدالت کو صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان پر تشدد کیا گیا۔

بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت نیب تو نہیں تھی؟ اگر قانون کے مطابق نہیں ہوا تو مناسب آرڈر پاس کریں گے۔ اگر قانون سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔

آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب نے کی اور ان کی گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔ اس موقع پر زخمی وکیل علی بخاری اور نعیم پنجوتھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عمران خان کے وارنٹ کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کردی۔

وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہو سکتی۔قانون یہ کہتا ہے انکوائری کے دوران یہ گرفتار نہیں کرسکتے۔القادر یونیورسٹی کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت آج دائر ہوئی، عمران خان بائیو میٹرک کرانے آئے تھے ان کو اسی وقت ریورس کرنا ضروری ہے ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیلنگ ہو رہی ہے، اس لیے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نہیں پہنچے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں غصے نہیں ہوتا لیکن میرے صبر کا امتحان نہ لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ نیب کسی کو اس طریقے سے بھی گرفتار کر سکتی ہے؟ کورٹ اسٹاف، وکلا، پولیس، عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ کیا ہے؟ کیا یہ گرفتاری قانونی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو کچھ ہمارے وکلا کے ساتھ ہوا وہ درست نہیں، باقی وارنٹ پر عمل درآمد ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ جس طریقے سے عمل درآمد کیا گیا، کیا یہ پراپر ہوا؟ وکلا پر حملہ  میرے اوپر حملہ کیا ہے یہ؟ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے یہ اتنا سادہ نہیں، اس لیے مجھے دیکھنا ہے مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہے عدالت کے احاطے سے یہ گرفتاری ہوئی ہے۔

عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کردیا۔ بعد ازاں سماعت پھر شروع ہوئی تو وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ نیب نے ججز گیٹ کیسے کھول لیا۔ساری حدیں عبور کی گئی ہیں، آج وکالت کے وقار کی بات ہے، جب ضمانت آجائے تو گرفتاری نہیں ہوسکتی۔

عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ انکوائری کب انویسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی اور کیا اس کا ریکارڈ ملزم کو دیاگیا ہے؟۔ جواب شروع ہونے پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو میرٹ پر بات کرنے سے روکا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے آج صرف اتنا دیکھنا ہے کہ گرفتاری قانونی طور پر درست ہوئی۔

نیب پرایسکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان کو 24 گھنٹے کے اندر ہم نے ٹرائل کورٹ میں پیش کرنا ہے جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ابھی معلوم ہوا کہ یہ بشریٰ بی بی کو بھی گرفتار کرنے گئے تھے، ہم نے آج اُن کی پٹیشن یہاں دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ کو نیب کی جانب سے کوئی سفارش موصول ہوئی، اس پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے عدالت سے مہلت مانگی اور کہا کہ میں تصدیق کے بعد ہی بتا سکتا ہوں۔ آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رینجر کے ایکشن کے حوالے سے علم میں تھا، اسلام آباد پولیس کی موجودگی میں رینجرز نے وارنٹس کی تعمیل کروائی۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ ہوا یہ زیادہ نہیں ہوگیا؟،اگر یہ سب کچھ غیر قانونی زمرے میں آیا تو پھر؟ 4 غلط اکھٹے کرلیں تو ایک صحیح تو نہیں ہوسکتا۔جو طریقہ اپنا گیا وہ درست نہیں تھا۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا۔