لیکسس، توشہ خانہ اور صفائی ورکرز

606

ایک گریڈ 20 کے سرکاری افسر کو لے جانے والی شوفر ڈراؤین سرکاری گاڑی جس کی مالیت 130 ملین روپے ہے، جو سبز نمبر والی پلیٹ کی نمائش کرتی بھری ہوئی سڑک سے گزرتی ہے۔ لاکھوں افراد کو ان کی کم از کم قانونی اجرت سے محروم رکھ کر خریدی گئی ہے۔ اس بے ہودہ لگژری سرکاری گاڑی نے گزشتہ 12 سال سے روڈ ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اگر کوئی حکومت اپنے ٹیکس خود ادا نہیں کرتی تو اسے اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کرنے کا کیا اخلاقی جوازہے؟ لیکسس ان 150,000 ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں میں سے صرف ایک ہے جو ہر ماہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے 12 ارب روپے سے زیادہ کا پٹرول استعمال کرتی ہیں۔ یہ ان متعدد مراعات میں سے ایک ہے جو ایک پلیٹ میں رکھ کر اس ملک پر راج کرنے والی اقلیت کو دی گئی ہیں، جنہیں اب طنزیہ الفاظ میں ’’اشرافیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں پر اشرافیہ کے قبضے، ہر پاکستانی لیڈر کی طرف سے توشہ خانہ کے تحائف کی بے تحاشا لوٹ مار اور لاکھوں غیر قانونی کم تنخواہ پانے والے ملازمین اور مجرمانہ طور پر استحصال کا شکار سینی ٹیشن ورکرز اور پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کے درمیان کیا چیز مشترک ہے۔ امتیازی طور پر آپس میں جڑے ہوئے، وہ اسی حقیر ’مینو فیکچرنگ میں تفاوت‘ کے عمل اور اثر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی اقلیت اپنے لامحدود استحقاق، مراعات، پٹرول، لگژری گاڑیوں، بھاری پنشن، بھاری تنخواہیں، غیر متناسب الاؤنسز، بڑی رہائش گاہیں، خصوصی کلب، غیر ملکی دوروں اور توشہ خانہ کے مہنگے تحائف کو ہڑپ کرنے کے لائسنس کو قانونی شکل دینے کے لیے قوانین بناتی ہے۔ یہ ہے پاکستانی عوام کی حقیقت۔
اس لالچی اقلیت کا ناقابل تسخیر بوجھ معاشرے کے غریب ترین، پسماندہ اور استحصال زدہ طبقے اٹھاتے ہیں۔ سندھ کی بلدیات میں ایک بھی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے صفائی عملے کو کم از کم قانونی اجرت نہیں ملتی اور پاکستان میں ایک بھی نجی سیکورٹی گارڈ کو، جو 12 گھنٹے کی شفٹ کرتا ہے، اس کی قانونی اجرت حاصل نہیں کرتا۔ جہاں ایک طرف بے شرم اشرافیہ معمولی جسمانی بیماریوں کے لیے پردیس کی طرف بھاگ جاتی ہے، وہیں گارڈز اور سینٹری ورکرز بیماری کے ایک دن کی بھی یومیہ اجرت سے محروم رہتے ہیں۔ چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اس اشرافیہ نے ایسی اسکیمیں بنائی ہیں جو خود کو، اپنی بیویوں اور ان کی دوسری نسلوں کو تاحیات پنشن کا حقدار بناتی ہیں، پاکستان میں ایک بھی کنٹریکٹ یافتہ سینیٹری ورکر یا پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ کو ای او بی آئی کے پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا موازنہ ان متعدد اہلکاروں سے کریں جو اپنی آخری تنخواہ کے 85 فی صد کے برابر پنشن، رعاتی قیمتی قیمت پر لگژری گاڑی کی خریداری، ایک سیکورٹی گارڈ، ایک ڈرائیور، ایک اردلی، 300 لیٹر مفت پٹرول، 2000 یونٹ مفت بجلی اور ماہانہ 3000 مفت ٹیلی فون کالز حاصل کرنے کے ’حقدار‘ ہیں۔
ایسی ظالمانہ عدم مساوات، ایسی ناانصافی، قومی وسائل کی ایسی بہیمانہ لوٹ کھسوٹ اور پسماندہ طبقے کے اس قدر شدید استحصال کے ساتھ کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اسے صرف سول سوسائٹی کی باشعور اور توانا آوازوں ہی سے روکا جا سکتا ہے جو اشرافیہ اور پسماندہ طبقے کے درمیان نفرت انگیز تفاوت کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ کوئی بھی اصول اور قوانین جو کسی بھی مراعات، سہولتیں، الاؤنسز، گاڑیاں، پٹرول یا کسی بھی قسم کے امتیازی فوائد کا حق کسی بھی ’’اشرافیہ‘‘ کو دیتے ہیں آئین کے آرٹیکل 25 کی روح کے خلاف ہیں اور انہیں فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔
وہ تمام لوگ جنہوں نے توشہ خانہ کی لوٹ مار میں حصہ لیا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ تحائف، ایسی رعایتی قیمت پر خرید رہے تھے، جو بذات خود تحفہ کی اصل قیمت کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ انہیں جوابدہ ہونا چاہیے، انہیں تحائف واپس کرنے کے لیے مجبورکیا جانا چاہیے اور مستقبل میں انہیں کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے سے روکنا چاہیے۔ پرٹوکول کے نام پر مختص ان ڈیڑھ لاکھ سرکاری کاروں کو واپس لے کر مارکیٹ میں فروخت کیا جانا چاہیے۔ انگریز جنہوں نے ہم پر 200 سال حکومت کی وہ صرف 86 سرکاری گاڑیوں کے کارپول سے کام چلا تے ہیں۔ جو ایک مرکزی کارپول میں رکھی ہوئی ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کے لیے وقف گاڑی کے علاوہ، باقی تمام وزراء اور حکام کو ایک درخواست فارم بھرنا ہوتا ہے، جس میں ہر سفر کا مقصد، وقت اور فاصلہ درج ہوتا ہے۔
پاکستان کی بقا گریڈ 16 سے اوپر کے تمام سرکاری افسران کی تنخواہوں، مراعات، الاؤنسز اور پنشن کو یکسر کم کرنے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں، صفائی ستھرائی کے کارکنوں، سیکورٹی گارڈز، پٹرول پمپ ملازمین اور کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ سے اور ان کی ای او بی آئی کی رجسٹریشن سے منسلک ہے۔ کان کن جو اس ملک کی غیر محفوظ کوئلے کی کانوں میں ہر روز مرتے ہیں۔