استقبال رمضان

757

مدینے میں گویا صحابہ کرام کا ایک جلسہ عام ہورہا ہے اور ابھی شعبان کے مہینے کے ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں جلسہ کا عنوان ’’استقبال رمضان‘‘ ہے اور رحمت اللعالمینؐ خطاب فرمارہے ہیں صحابہ کرام پوری توجہ اور انہماک سے فرمان نبوی کو سن رہے ہیں جب کوئی مہمان گھر واپس آرہا ہوتا ہے جس سے گھر والے محبت کرتے ہوں اور آنے والا مہمان ایک لمبے عرصے کے بعد بہت سارے تحفے تحائف لے کر دوبارہ واپس آرہا ہو تو اس مہمان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس کا انتظار شدّت کے ساتھ کیا جانے لگتا ہے بے شک رمضان المبارک بھی وہ مہمان ہے جو اپنے ساتھ بے شمار تحائف لے کر آرہا ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے، اس مہینے میں دن میں روزہ رکھنا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے اور راتوں میں قیام کرنا نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا و قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی نفل ادا کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر ہو گا اور اگر کوئی اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو گویا اس نے ستّر فرض ادا کیے، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اس مہینے میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور آگ سے نجات کا باعث ہوگا اور اسے اس روزے دار کے روزے کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزے دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔ کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیؐ اہم میں سے ہرکوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا جس سے وہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا سکے نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ یہ ثواب اس کو بھی دیا جائے گا جو تھوڑے سے دودھ کی لسی، کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرائے گا اور جو کوئی کسی کو پیٹ بھر کر افطار کرائے گا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے تین عشرے ہیں پہلا رحمت کا دوسرا مغفرت کا اور تیسرا جہنّم کی آگ سے نجات کا اور جو شخص اس مہینے میں اپنے مملوک سے کام میں تخفیف کرے گا اس کی اللہ مغفرت فرمائے گا اور جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائے گا۔ یہ وہ حدیث ہے جس کے راوی سیدنا سلمان فارسیؓ ہیں۔ نبی رحمتؐ کی اس تقریر نے صحابہ کرامؓ کے اندر رمضان کی اہمیت کو واضح کردیا۔ اس طرح صحابہ کرام کو جمع کرکے اور ان کے سامنے یہ گفتگو آپ رمضان سے پہلے اس کے استقبال کے موقع پر کیا کرتے تھے۔
اس سال ماہ رمضان ایک ایسے عالم میں آرہا ہے اور اہل پاکستان رمضان کا استقبال کررہے ہیں کہ یہاں سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے اشرافیہ نے پورے ملک کی دولت کو لوٹ کرکھالیا ہے اور کرپشن کا جن بے قابو ہے جس کی وجہ سے مہنگائی نے عوام کی کمر دوہری کررکھی ہے ملک کے اندر غربت کی وجہ سے لوگ اپنے بچے فروخت کرنے اور خود سوزی کرنے جیسا عمل بھی کرگزر رہے ہیں
جس کی خبریں ملک کے طول عرض سے آرہی ہیں۔ چودھریوں، جاگیرداروں اور وڈیروں نے پاکستان کو کسی خونیں بھیڑیے کی طرح دبوچا ہوا ہے اور اس کے جسم سے تمام خون چوس چکے ہیں ان خونیں بھیڑیوں کا جسم اب جگہ جگہ سے پھٹ رہا ہے اور اس کی بدبو سے تمام ذی روح ایک گھٹن کے ماحول میں جینے پر مجبور ہے ایسا لگ رہا ہے کہ کسی لمحے سانس رک جائے گی ستّر سال سے پاکستان کو بھنبھوڑنے والے یہ بھیڑیے شکل بدل بدل کر اقتدار میں آتے رہے ہیں اور اب بھی یہ اپنے بدبودار وجود کے ساتھ پاکستان اور اس کی عوام کو شکار کرکے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے اخلاقی حدیں پھلانگ کر ایک دوسرے کے کپڑے نوچ رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی اہل پاکستان نے اس ماہ مبارک کا استقبال تبدیلی سرکار کے جھوٹے نعروں اور وعدوں کے ماحول میں کیا تھا اور اب بھی ایک نا گفتہ بہ صورتحال ہے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ لاڈلے جو اب کسی نئی ڈیل کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے زبانیں باہر نکالے ایوان حکومت کے باہر کھڑے رال ٹپکا رہے ہیں تو دوسری طرف دوسری ڈیل کے ذریعے آنے والے علی بابا اور چالیس چوروں کا ٹولہ ہے۔ ابھی رمضان شروع ہونے میں کئی دن باقی ہیں مگر اندازہ یہ ہورہا ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان برائے اعلان کے باوجود مہنگائی رمضان المبارک میں سیلاب بلا کی صورت اختیار کر جائے گی۔
رمضان المبارک کی ساعتوں میں نظام باطل کے خلاف تین سو تیرہ اہل ایمان نے فتح پائی تھی اور یہی وہ مہینہ تھا جس کی ساعتوں میں اہل ایمان نے خانہ خدا کو مشرکوں کے قبضے سے چھڑا یا تھا میرے عزیر ہم وطنوں! وہ نظام باطل کیا تھا جس کی سربراہی ابوجہل کے ہاتھوں میں تھی جس نظام کو سرمائے کا خون ابولہب اور اس وقت کے سرمایا دار فراہم کررہے تھے تاکہ یہ نظام باطل اسی طرح چلتا رہے اور عوام پر ظلم ستم کی یہ سیاہ رات قائم و دائم رہے بالکل اُسی طرح جس طرح فرعون کا نظام حکومت قارون کے خزانے کے لہوں سے پھلتا پھولتا تھا آج بھی اسی طرز کی حکمرانی موجود ہے بس شکل بدل گئی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس نے اہل ایمان کو مشقتوں سے گزار کر اور اللہ کی کتاب سے لیس کرکے باطل کے خلاف صف آرا کیا تھا مگر اب پھر رمضان آئے گا ہم اور آپ ا س کا استقبال کریں گے پورا مہینہ روزے بھی رکھیں گے مگر شاید کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اس لیے کہ ہم رمضان کے پیغام کو سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ جیسے علامہ اقبال نے کہا کہ
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ رمضان کے پیغام کو سمجھا جائے قرآن کو تھاما جائے اس پیغام کو گھر گھر اور در در پہنچایا جائے اور مسلسل جدوجہد کا عنوان بنا جائے اسی میں ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا ہے ورنہ یہ بھیڑیے کسی دن پوری قوم کے لیے اس ملک کو کسی جاگیردار وڈیرے کی نجی جیل میں تبدلی کردیں گے اور پھر روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لاشیں بارکھان کے کنویں سے نکلیں گی معلوم نہیں کہ پھر کوئی سینیٹر مشتاق ہوگا یا عبدالاکبر چترالی ہوگا جس کو ان بے گناہوں کی چیخیں اور قرآن کا واسطہ چین سے سونے نہ دے رہا ہوگا۔ اٹھو کہ دیر نہ ہوجائے۔