پاکستان میں سول فوجی کشمکش کے شرمناک پہلو

783

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میری حکومت امریکا نے نہیں جنرل باجوہ نے گرائی۔ ان کے بقول جنرل باجوہ نے امریکا کو باور کرایا کہ عمران خان امریکا کا مخالف ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت میں جنرل باجوہ سپر کنگ تھے اور ہمارے سارے فیصلے وہی کرتے تھے میں صرف ایک پنچنگ بیگ تھا۔ سرکاری پالیسیوں کی منظوری جنرل باجوہ دیتے تھے اور خرابیوں کا ذمے دار مجھے ٹھیرایا جاتا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ کے لیے شریف خاندان کی کرپشن کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ ہم شریفوں کے ساتھ کام کریں جس کا مطلب تھا کہ ہم شریفوں کو کرپشن کے کیسوں میں ریلیف دیں، عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ نے تمام فیصلوں کا کریڈٹ خود لیا اور خرابی عمران خان پر ڈال دی۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 13 فروری 2023ء)
دنیا بھر میں جرنیل دشمنوں کو ختم کرتے ہیں مگر پاکستان میں جرنیلوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ بھارت اور امریکا جیسے دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ انہوں نے 1971ء میں بنگالیوں پر ہتھیار اٹھائے۔ 1980ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ کے لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کی۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی میں طاقت کا استعمال ہوا۔ بلوچستان کی تاریخ یہ ہے کہ وہاں چار فوجی آپریشن ہو چکے ہیں اور پانچواں فوجی آپریشن جاری ہے۔ جرنیلوں کی سیاست کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے کہ وہ ریاستی ناکامیوں کا ذمے دار ہمیشہ سیاست دانوں کو ٹھیراتے ہیں۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو ملک کے سیاسی عدم استحکام کو مارشل لا کا سبب قرار دیا۔ لیکن یہ ایک عذر لنگ تھا، پوری دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یورپ میں سیاسی قیادت کی ناکامی سے دو ہولناک عالمی جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں میں دس کروڑ افراد مارے گئے مگر یورپ کے کسی بھی ملک میں جرنیلوں نے سیاست دانوں کو اس نقصان کا ذمے دار قرار دے کر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا کے جنرل میک آرتھر امریکا کے عسکری ہیرو بن کر ابھرے مگر دوسری عالمی جنگ کے دوران انہیں سیاسی قیادت کی طرف سے حکم ملا کہ وہ جاپان کے محاذوں پر پیش قدمی روک دیں۔ جنرل میک آرتھر کو اس حکم سے اتفاق نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ امریکی فوجوں کی پیش قدمی جاری رہتی تو امریکا چند دن میں پورا جاپان فتح کر لیتا۔ چنانچہ جنرل میک آرتھر نے صحافیوں کے سامنے اپنے اختلاف کا اظہار کر دیا۔ یہ اختلاف اخبارات میں شائع ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے امریکا کی سیاسی قیادت نے جنرل میک آرتھر کو فوری طور پر امریکا واپس بلا لیا۔ 1990ء کی دہائی میں اٹلی اور جاپان میں آئے روز حکومتیں بدل جاتی تھیں مگر جاپان اور اٹلی کے جرنیلوں نے سیاسی عدم استحکام کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ میں بھارت نہرو کی قیادت میں جنگ ہار گیا۔ مگر بھارت کی فوج نے نہرو کی ناکامی کو بنیاد بنا کر اقتدار نہیں ہتھیایا۔ بھارت میں گاندھی، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی قتل ہوئے مگر بھارتی فوج کو اقتدار پر شب خون مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔ مگر جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کی آڑ میں اقتدار پر ایسا قبضہ کیا کہ سیاسی اقتدار آج تک پاکستانی جرنیلوں کے نرغے میں ہے۔ سقوط ڈھاکا ہماری تاریخ کا المناک ترین باب ہے۔ سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں قائداعظم کا اوریجنل پاکستان ختم ہو گیا اور مغربی پاکستان کی صورت میں آدھا پاکستان باقی رہ گیا۔ لیکن جنرل یحییٰ نے صدر اور آرمی چیف ہونے کے باوجود پاکستان کے دو لخت ہونے کے سلسلے میں اپنی ذمے داری قبول نہیں کی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ آج بھی سقوط ڈھاکا کا ذمے دار شیخ مجیب، بھٹو اور اندراگاندھی کو ٹھیراتی ہے۔ حالانکہ اگر جنرل یحییٰ شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کر دیتے تو نہ ملک ٹوٹتا، نہ سقوط ڈھاکا ہوتا نہ ہمارے 90 ہزار فوجی ہتھیار ڈالتے۔ نہ بھٹو شیخ مجیب یا جنرل یحییٰ کا کچھ بگاڑ پاتے۔ بھٹو 1971ء میں کچھ بھی نہیں تھے۔ اس کے برعکس 1977ء میں جب جنرل ضیا الحق نے انہیں برطرف کیا اور پھانسی پر لٹکایا تو بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے۔ مقبول عوام رہنما تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے۔ ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دینے والی شخصیت تھے مگر اس کے باوجود جنرل ضیا الحق نے انہیں کرسی کیا زندگی ہی سے محروم کر دیا اور بھٹو جنرل ضیا الحق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں میاں نواز شریف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس صورت حال کا ذمے دار میاں نواز شریف کو ٹھیرایا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے جس طرح آرمی چیف کو برطرف کیا اس طرح تو کسی کلرک کو بھی برطرف نہیں کیا جاتا۔ جنرل پرویز کا یہ بیان دھواں دار تو تھا مگر اس میں حقیقت نہیں تھی۔ میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے اور وہ آرمی چیف کو برطرف کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے بھی اقتدار پر قبضہ کیا تو ملک کے سیاسی عدم استحکام کو مارشل لا کا سبب قرار دیا تھا حالانکہ فوجی آمروں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو ملک میں کم سیاسی انتشار تھا البتہ جب وہ اقتدار سے محروم ہوئے تو ملک میں زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا۔
جرنیل سیاست دانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ نااہل اور بدعنوان ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کو نااہل اور بدعنوان سیاست دان ہی ’’سُوٹ‘‘ کرتے ہیں۔ سیاست دان اہل بن جائیں اور کرپشن سے پاک ہو جائیں تو پھر جرنیل انہیں اقتدار سے کس طرح محروم کریںگے؟ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جماعت اسلامی اہل اور بدعنوانی سے پاک سیاست دانوں کا گروہ ہے اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہر قومی محاذ پر لڑ کر دکھایا ہے اور قربانیوںکی لازوال تاریخ رقم کی ہے۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان سیاسی بحران میں مبتلا تھا تو جماعت اسلامی نے البدر اور الشمس قائم کر کے ملک کے دفاع کا حق ادا کیا۔ کشمیر میں جہاد شروع ہوا تو جماعت اسلامی اس میدان میں فوج سے بھی آگے کھڑی تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی ہوئی تو جماعت اسلامی نے اس معرکہ آرائی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کی طویل تاریخ میں سیکڑوں افراد قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے رکن رہے ہیں مگر ان پر کبھی ایک پیسے کی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا۔ اس کے باوجود جرنیلوں نے کبھی جماعت اسلامی کو اقتدار میں لانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جماعت کا دامن بدعنوانی سے پاک ہو اسے دبائو میں لانا اور جوتے مار کر اقتدار سے باہر کرنا آسان نہیں۔ اس کے برعکس جرنیلوںنے جی ایچ کیو کی نرسری میں بھٹو کو کاشت کیا۔ یہ جرنیل تھے جنہوں نے میاں نواز شریف کو میاں نواز شریف بنایا۔ جنرل ضیاء الحق کے بغیر الطاف حسین الطاف حسین اور ایم کیو ایم، ایم کیو ایم نہیں بن سکتی تھی۔ جرنیلوں کی مدد کے بغیر عمران خان کبھی ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے 200 ارب روپے کے قرضے معاف کیے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے پالتو سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے 200 ارب کے قرضے معاف کیے۔
اقبال نے کبھی کہا تھا ؎
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سّرِ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست دانوں نے کبھی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش کی اور نہ سر آدم اور ضمیر کن فکاں کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کی۔ بھٹو صاحب سوشلسٹ بھی تھے لبرل بھی تھے مگر ان کی شخصیت کی پستی کا یہ عالم تھا کہ وہ جب جنرل ایوب کی کابینہ کے رکن تھے تو وہ جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب سے الگ ہوئے تو انہوں نے جنرل یحییٰ کے ساتھ قریبی مراسم پیدا کر لیے۔ بھٹو اگر حقیقی معنوں میں سیاستدان اور محب وطن ہوتے تو وہ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو دل سے تسلیم کر کے اقتدار ان کے حوالے کر دیتے۔ مگر بھٹو نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگا دیا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں ملک کے وزیراعظم بن کر ابھرے۔ بلاشبہ بھٹو عوام میں مقبول تھے مگر ان کی اخلاقی ساکھ نہ ہونے کے برابر تھی۔ چنانچہ لوگ انہیں ووٹ اور نوٹ تو دے سکتے تھے مگر ان کے لیے سڑکوں پر ڈنڈے اور گولیاں نہیں کھا سکتے تھے۔ چنانچہ بھٹو کا یہ تجربہ حقیقت نہ بن سکا کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کسی نے ہمالے کو روتے نہ دیکھا اور نہ ہی سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
اِدھر اُدھر اِکا دُکا مظاہرے ہوئے۔ دو چار لوگوں نے بھٹو کی پھانسی کے غم میں خود سوزی کر لی اور بس۔ میاں نواز شریف کی جرنیل پرستی بھی بے مثال تھی۔ وہ جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے بھٹو کی طرح میاں نواز شریف کی بھی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔ جنرل پرویز نے میاں صاحب کو برطرف کیا تو میاں صاحب کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی مگر میاں صاحب اپنی برطرفی کے بعد ایک ہزار افراد کا مظاہرہ بھی برپا نہ کر سکے۔ ان کی برطرفی کے دو ہفتے بعد کراچی میں مشاہد اللہ نے ڈیڑھ درجن افرد کا ایک مظاہرہ کیا۔ اس سے ثابت ہوا کے عوام میں میاں صاحب کی اخلاقی ساکھ صفر ہے۔ لوگ انہیں نوٹ اور ووٹ تو دے سکتے ہیں مگر ان کے لیے ڈنڈے اور گولیاں نہیں کھا سکتے۔ جنرل پرویز نے میاں صاحب کو جیل میں ڈالا تھا اور یہ چیز جنرل پرویز کے لیے ایک بار تھی۔ وہ دو چار سال تک میاں صاحب کو جیل میں قید نہیں رکھ سکتے تھے مگر بدقسمتی سے میاں نواز شریف نے جیل کی صعوبتوں سے گھبرا کر جنرل پرویز کے ساتھ خفیہ ڈیل کر لی اور سعودی عرب فرار ہو گئے۔ بدقسمتی سے عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک ’’سیاسی پروجیکٹ‘‘ تھے وہ اپنی طاقت سے بھی اقتدار میں آسکتے تھے مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی چھتری کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ الیکٹ ایبلز کی سیاست بھی کریں گے اور سرمائے کی سیاست کو بھی گود لیں گے۔ اس کا نتیجہ ان کے سامنے ہے۔ بھٹو اور نواز شریف کی طرح ان کی بھی اخلاقی ساکھ نہیں ہے۔ لوگ انہیں ووٹ دے سکتے ہیں نوٹ دے سکتے ہیں لیکن لوگ ان کے لیے ڈنڈے کھانے، جیل جانے اور جان دینے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان کی یہ کمزوری نہ ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔