!ایک خواب۔ کاش یہ حقیقت بن جائے

570

کتاب پڑھتے پڑھتے اونگھ آگئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑے سے ہال میں اخبار نویسوں اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ نمائندوں کا ہجوم ہے، ٹی وی کیمروں کی فلش لائٹس بار بار جل بجھ رہی ہیں اور سامنے اسٹیج پر ایک صاحب بیٹھے ہیں جن کے چہرے پر بلا کا اطمینان جھلک رہا ہے۔ ہم غور سے دیکھتے ہیں تو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے ’’ارے یہ تو ملک ریاض ہیں، ہمارے ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ٹائیکون، بحریہ ٹائون کا عظیم الشان منصوبہ شروع کرنے والے جس نے پورے پاکستان میں جدید ترین رہائشی سہولتوں کی دھاک بٹھادی ہے۔ ملک ریاض بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس کا آغاز کرتے ہیں۔ ’’حضرات میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ میں اپنی دولت کا نوے فی صد جو تقریباً 5 ارب ڈالر بنتی ہے، مملکت پاکستان کو عطیہ کررہا ہوں۔ پاکستان اِس وقت شدید اقتصادی بحران میں مبتلا ہے اور عملاً ڈیفالٹ کر گیا ہے۔ وہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کے لیے اس کے تلوے چاٹ رہا ہے اور اس کی نہایت ظالمانہ شرائط قبول کررہا ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ آئی ایم ایف کی کوئی شرط قبول نہ کی جائے اور اسے سرخ جھنڈی دکھا دی جائے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ مجھ سے 5 ارب ڈالر وصول کرکے فوری طور پر ضروری ادائیگیاں کی جائیں۔ حضرات! یہ رقم میری نہیں اصل میں پاکستان ہی کی ہے۔ میں نے پاکستانی وسائل سے یہ دولت کمائی ہے اور اب ضرورت پڑنے پر پاکستان کو لوٹا رہا ہوں۔ میں جنرل ضیا الحق کے دور میں فوج کا نہایت معمولی ٹھیکیدار تھا۔ پھر میرے ذہن ِ رسا نے ہائوسنگ کا ایک منصوبہ بنایا اور فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو ساتھ ملا کر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے ہائوسنگ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ یہ کام اتنا نفع بخش ثابت ہوا کہ میں دنوں میں لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی، ارب پتی سے کھرب پتی ہوتا گیا۔ مجھے فخر ہے کہ بحریہ ٹائون عالمی معیار کا رہائشی منصوبہ ہے جس کا موازنہ دنیا کی جدید ترین بستیوں سے کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب پاکستان کا اثاثہ ہے، پاکستان پر مشکل وقت آیا تو میرا فرض بنتا ہے کہ جو کچھ کمایا ہے پاکستان کے حوالے کردوں۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ملک ریاض یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں، ان کا سیکرٹری مائیک پر آکر اعلان کرتا ہے کہ ملک صاحب کی پریس کانفرنس ختم ہوگئی ہے۔ کوئی سوال و جواب کا سیشن نہیں ہوگا۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھتا ہے اور میڈیا کے نمائندے اپنی جگہ سے اُٹھنے لگتے ہیں کہ مسلم لیگ کے رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اسٹیج پر آکر صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
’’حضرات تشریف رکھیں، میں ابھی ابھی لندن سے آیا ہوں، میاں نواز شریف بھی اس حوالے سے ویڈیو لنک پر ہنگامی پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں، انتظار کیجیے، اسٹیج پر ایک بڑی سی اسکرین لگادی جاتی ہے، تھوڑی دیر بعد اس اسکرین پر میاں نواز شریف کی شبیہ نمودار ہوتی ہے، وہ سامنے بیٹھے ہوئے اخباری نمائندوں اور الیکٹرونک میڈیا کے اینکر پرسنز سے مخاطب ہیں۔
’’حضرات اسلام علیکم۔ مجھے ایک مدت کے بعد آپ لوگوں سے خطاب کا موقع مل رہا ہے، میں نے ابھی ملک ریاض کی پریس کانفرنس سنی ہے ان کی پریس کانفرنس سن کر میرا بھی جذبہ حب الوطنی جاگ اُٹھا ہے، مجھے اندازہ نہ تھا کہ پاکستان کا اقتصادی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے ہیں مجھے جب یہ اطلاع ملی تھی کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے تو میں نے یہاں سے اسحاق ڈار کو بھیجا تھا کہ وہ حالات کو سنبھال لیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثے واگزار کرانے اور اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ آئی ایم ایف سے بھی کامیاب مذاکرات نہیں کرسکے۔ انہوں نے پہلے بھی معیشت کا یہی حال کیا تھا۔ لیکن ہم کیا کریں ہمارے پاس کوئی ماہر معاشیات ہی نہیں ہے۔ بہرکیف چھوڑیے اس قصے کو میں اس مشکل وقت میں اپنے عزیز وطن پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا عطیہ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ یہی میرا نقد اثاثہ ہے جسے میں نے اقتدار کے دوران بڑی محنت سے جمع کیا ہے۔ البتہ زمینی املاک اس کے علاوہ ہیں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے والد ایک لوہار تھے جو لوہا کوٹنے کا کام کرتے تھے وہ اگر امرتسر کے گائوں جاتی امرا میں رہائش پزیر رہتے تو کبھی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ وہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے پاکستان بننے سے پہلے ہی لاہور ہجرت کرکے آگئے۔ لاہور نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، ان کی محنت رنگ لائی اور ان کا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کاروبار کو پَر لگ گئے اور انہوں نے اتفاق فائونڈری کی صورت میں ایک انڈسٹری امپائر قائم کرلی۔ بھٹو کے زمانے میں جب اس امپائر کو قومی تحویل میں لیا گیا تو ہم نے بھی سیاست میں آنے اور بھٹو کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل ضیا الحق ہمارے لیے فرشتہ ثابت ہوئے انہوں نے نہ صرف اتفاق فائونڈری ہمیں واپس کردی بلکہ مجھے پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ پھر وزیراعلیٰ بنادیا۔ بس پھر کیا تھا ہم پر ہن برسنے لگا۔ پھر پنجاب بھی ہمارے پاس رہا اور ہم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مرکز پر بھی قابض ہوگئے۔ اس موقع پر جنرل حمید گل نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنے کاروبار سے علاحدگی اختیار کرلیں اور گڈگورننس پر توجہ دیں لیکن ہمارے والد صاحب نے یہ مشورہ مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو ہمارے کمانے کے دن ہیں اب بھی نہ کمایا تو کب کمائیں گے۔ والد صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ ہم نے اتنا کمایا اتنا کمایا کہ ہمارا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ پاکستان غریب ہوگیا لیکن ہم بدستور امیر ہیں اور آج میں اسے 6 ارب ڈالر عطیہ کرنے کا اعلان کررہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اسکرین سے میاں نواز شریف کی شبیہ غائب ہوجاتی ہے۔ ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اُٹھتا ہے۔
صحافی حضرات اُٹھنے کے لیے پہلو بدلنے لگتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ایک نمائندہ اسٹیج پر آکر اعلان کرتا ہے ’’سب لوگ بیٹھے رہیں ہمارے قائد آصف زرداری ایک اہم پریس کانفرنس کرنے تشریف لارہے ہیں‘‘ پھر کچھ دیر بعد آصف زرداری مسکراتے ہوئے اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں اور سلام سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہیں۔
حضرات آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ میری زندگی کوئی چھپا ہوا راز نہیں ہے آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں کراچی میں ایک سینما گھر کے باہر ٹکٹیں بلیک میں بیچا کرتا تھا، پھر قسمت نے یاوری کی، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکی صاحبزادی بے نظیر بھٹو سے میری شادی ہوگئی اور دولت نے میرا گھر دیکھ لیا۔ میں بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوا یعنی تمام سرکاری ٹھیکوں اور ترقیاتی منصوبوں میں میرا ٹین پرسنٹ کمیشن ہوا کرتا تھا، نیا نیا کام تھا اس لیے میں نے کمیشن کی شرح کم رکھی تھی۔
اس کے باوجود خاصی دولت جمع ہوگئی لیکن بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں بھی میں نے چھلانگ لگائی اور مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کہلانے لگا، یعنی منصوبے کاغذ پر بنتے تھے اور کاغذ ہی پر مکمل ہوتے تھے اور ساری رقم میری جیب میں آتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی دولت کمانے کے بے شمار ذرائع تھے۔ غرضیکہ دولت کے ڈھیر لگ گئے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد سے سندھ پر ہماری حکومت چلی آرہی ہے۔ وہاں سے ہونے والی آمدنی کا بھی کوئی حساب نہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے نہیں معلوم میرے پاس کتنی دولت ہے لیکن درحقیقت یہ ساری دولت پاکستان کی ہے میں اس مشکل وقت میں یہ دولت پاکستان کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے 7 ارب ڈالر پاکستان کو دینے کا اعلان کررہا ہوں۔ اُمید ہے اس سے پاکستان کو اپنی معیشت بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ میں اپنے صحافی دوستوں سے کہوں گا کہ وہ مجھے بھی اپنے سوالات سے معاف رکھیں‘‘۔ یہ کہہ کر زرداری صاحب کرسی سے اُٹھ جاتے ہیں اور ہال پھر تالیوں سے گونجنے لگتا ہے۔
میڈیا کے نمائندے اب اُٹھنے کی تیاری کررہے ہیں کہ ہال میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ عمران خان آرہے ہیں وہ آتے ہی اسٹیج پر مائیک سنبھال لیتے ہیں۔
’’حضرات آج میں بہت خوش ہوں میری دلی آرزو پوری ہوئی ہے، میں تینوں حضرات کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ملک ریاض پہلے ہی میرے دوست ہیں، میں نواز شریف اور زرداری کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ آج سے دوستی شروع دشمنی ختم۔ میرے پاس تو اتنی دولت نہیں لیکن میرے اکائونٹس میں جو کچھ بھی ہے پاکستان کی نذر کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر ان خاندانوں کا بہت چرچا ہے، جنہوں نے میرے دور حکومت میں خوب مال بنایا ہے۔ میں ان سے بھی یہ مال اُگلوائوں گا، البتہ اس سلسلے میں مجھے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی حمایت درکار ہے، میں اس موقع پر قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ تحریک انصاف کے تمام استعفے واپس لیے جائیں۔ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان بھی واپس لیتا ہوں، انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ مجھے اب انتخابات کی کوئی جلدی نہیں ہے، یہ مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں لیکن صاف و شفاف ہوں اور ان میں ڈندی نہ ماری جائے۔ عمران خان یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے اُتر کر چلے گئے اور ہال دیر تک ’’عمران زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ نعروں کے شور سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ یہ ایک خواب تھا لیکن ہم کیا پوری قوم سوچتی ہے۔ کاش ایسا ہوجائے۔