پاکستان کو اپنی ہی حکمران اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹا

631

اب زیادہ تر لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ ملک کو کتنی بے دردی سے لوٹا گیا ہے، وسائل تباہ کردیے گئے اور ترقی اور خوشحالی کے مواقع چوری کرلیے گئے ہیں۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ نا اہل سیاسی رہنما، چاہے وہ ان کی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوں اور ناکارہ بیوروکریسی اس ڈوبتے ہوئے ملک کو بچانے کی صلاحیت یا عزم نہیں رکھتے۔ لیکن شاید جو بات کافی حد تک واضح نہیں ہے اور جس کے خلاف انہیں بغاوت کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ امیر اور طاقتور حکمران اشرافیہ ہی ہمیں تباہی کے ان گڑھوں کی طرف لے جانے کا سبب بنی ہے۔ وہ اس ملک کی تمام دولت اور گاڑیاں، زمینیں اور قرضے، مراعات اور پروٹوکول اور امداد اور سبسڈی کو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے لوٹتے رہے ہیں، اور اب بھی لوٹ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عام شہری اٹھ کھڑے ہوں اور چار لاکھ روپے تنخواہ یا ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ پنشن کے طور پر حاصل کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں اور پنشن میں 50 فی صد کمی کا مطالبہ کریں۔ گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے سول اور فوجی حکام کے لیے بنائے گئے متعدد دیگر خود ساختہ فوائد، مراعات اور سہولتوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا ئے۔ صرف اس بچت پر غور کریں جو صرف ایک ہی پرک یعنی سرکاری گاڑیوں کے استعمال کو ختم کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان، دنیا کے غریب ترین ممالک میں سب سے زیادہ سرکاری گاڑیاں رکھتا ہے، جو اپنے اہلکاروں کو بظاہر سرکاری استعمال کے لیے مختص کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ سرکاری گاڑیاں اور پٹرول، یہ اشرافیہ اپنے، خاندان اور دوستوں کے نجی کاموں کے لیے بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ ہمارے چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے افسران نے ایسی ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ گاڑی کی قیمت کے علاوہ حکومت ان کے ایندھن اور دیکھ بھال کے لیے بھی ادائیگی کرتی ہے۔ زیادہ تر معاملات میں پیکیج میں ڈرائیور بھی شامل ہوتا ہے۔ حکومت کو ان تمام گاڑیوں میں سے 90 فی صد کو واپس لینے سے کون روکتا ہے، یہ رعایت ختم کرکے صرف 10 فی صد گاڑیوں کو ایک مشترکہ پول میں رکھنا چاہیے۔ یہ گاڑیاں صرف سرکاری کام کی مخصوص ضرورت کی بنیاد پر استعمال کرنے کے لیے ہونی چاہیے۔ گھر سے پک اینڈ ڈراپ کے لیے کبھی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ برطانیہ، امریکا اور کینیڈا میں تو وزراء کو بھی گھر سے پک اینڈ ڈراپ کے لیے گاڑیاں الاٹ نہیں کی جاتیں۔ ایک محتاط اندازے کے ساتھ فرض کریں کہ ہر گاڑی ہر ماہ 200 لیٹر پٹرول استعمال کرتی ہے، تمام سرکاری گاڑیوں کو واپس لینے کا مطلب ہر ماہ 30 ملین لیٹر پٹرول کی فوری بچت ہوگی۔ اس کا مطلب ہے فیول کی درآمد میں 22 ملین ڈالر ماہانہ کی بچت، جس کی سال بھر کی مالیت 264 ملین ڈالر ہوتی ہے۔ حکومت یہ بچت کیوں نہیں کرتی، اور اس جیسی کئی دیگر خرچ بچانے والی، کفایت شعاری کی اسکیمیں کیوں نہیں اپنا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر لوگ اپنی عیاشی، اور آسائشوں کو کم کرنا پسند نہیں کرتے اور عام شہری اپنا منہ بند کیے، چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں، انہیں اب اپنی آواز بلند کرنی چاہیے، یہی سمجھداری اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر اس پر بات کریں۔