یو کرین جنگ: جی7 ممالک کا اجلاس دنیا کو جہنم بنا دے گا؟

849

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر بنگلور میں جی 7 ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنرز کے اجلاس کی صدارت جاپان کرے گا۔ جاپان کے وزیر خزانہ شونیچی سوزوکی نے کہا ہے کہ گروپ آف سیون (جی 7) کے مالیاتی رہنما 23 فروری کو روس کے خلاف ان اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جس سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اس پر دباؤ پڑے گا۔ جاپان اس سال جی7 وزارتی اجلاسوں کی صدارت کر رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ’جی7 ممالک کا اجلاس دنیا کو جہنم بنا دے گا۔ لیکن اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
23فروری 2021ء کو جب یوکرینی فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر قافلے کی نقل و حرکت کے نقشے کے مطابق اس پر حملہ کرنے والے فوجی قافلے کی لمبائی 56 کلومیٹر طویل تھی اس میں ایک ہزار ٹینک، 24 سو میکنائزڈ انفنٹری کی گاڑیاں اور دس ہزار فوجی شامل تھے۔ اس کے علاوہ درجنوں ٹرک خوراک، ایندھن، تیل اور گولہ بارود سے لدے ہوئے تھے۔ جس کے بعد امریکا نے بھاری اسلحہ یوکرین کو فراہم کر دیا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے بھی یوکرین کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ جی 7 ممالک کے وزرائے خزانہ کی یہ ملاقات روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے تقریباً اس ایک سال مکمل ہونے کے بعد ہو رہی ہے، روس نے اسے ’خصوصی فوجی آپریشن‘ قرار دیا تھا۔ جی 7 اور دیگر ممالک کی جانب سے روس کے خلاف متعدد تعزیری اقدامات کے باوجود جنگ تاحال جاری ہے۔ روس کے خلاف متعدد تعزیری اقدامات کو اب ایک سال گزر چکا ہے۔ جاپانی وزیر خارجہ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’’یوکرین کی حمایت اور روس کے خلاف پابندیاں اجلاس کے دوران بحث کے اہم موضوعات ہوں گے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پابندیوں کے اثر کو بڑھانے کے لیے جی 7 اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرتے رہیں گے، تاکہ روس کو جنگ سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کے حتمی مقصد کو حاصل کیا جاسکے‘۔
جاپان اس سال جی7 وزارتی اجلاسوں کی صدارت کر رہا ہے جو ہیروشیما میں 19 تا 21 مئی کو ہونے والے جی7 کے سربراہ اجلاس سے پہلے ہوگا۔ خیال رہے کہ جی 7 ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا شامل ہیں۔ جی 7 اجلاس کے بعد ہفتے کے آخر میں دنیا کی بڑی معیشتوں جی20 کے مالیاتی رہنماؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوگا، جس کی میزبانی جی20 کا موجودہ صدر بھارت اپنے شہر بنگلور میں کرے گا۔ جی 20 ممالک کے اجلاس میں یوکرین کی جنگ اور عالمی معیشت کا معاملہ توجہ کا مرکز بننے کی توقع ہے۔ اجلاس میں افراط زر پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جو روس کی جنگ، توانائی اور خوراک کی قیمتوں کی وجہ سے بڑھی ہے اور قرض کے مسائل کا سامنا کرنے والی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی مدد پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔ ایک سینئر جاپانی عہدیدار نے کہا کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرضوں سے نمٹنے میں ناکامی مالی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ جاپانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مسائل پر بات چیت میں حصہ ڈال کر ہم ایسے اہم نتائج حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں جو مستحکم اور پائیدار عالمی نمو کا باعث بنیں گے۔ عین اسی ہنگاموں کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے کیا گیا معاہدہ معطل کردیا۔
یوکرین جنگ کو ایک برس مکمل ہونے کے موقع پر پیوٹن نے جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ میدان جنگ میں ہمیں شکست دینا ناممکن ہے، یہ جنگ انہوں نے شروع کی تھی لیکن اسے ختم ہم کریں گے۔ روسی قانون سازوں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مغربی قوتوں کے اقدامات نے امریکا سے معاہدے کی معطلی پر مجبور کیا۔ روسی صدر نے یوکرین جنگ بڑھانے، متاثرین کی تعداد میں اضافے اور تنازع کو ہوا دینے کا الزام مغربی ممالک پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کے ایما پر یوکرین نے جنگ کا ماحول پیدا کیا۔
یہ پہلا موقع ہے جب روس، یوکرین جنگ کے معاملے پر پاکستان، انڈیا اور چین ایک صفحے پر ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ’امن کا راستہ اپنانے کے لیے سفارت کاری کے راستے کھلے رکھنے ہوں گے۔ اس لیے ہم پوری امید رکھتے ہیں کہ امن مذاکرات جلد از جلد دوبارہ شروع ہوں تاکہ تنازع فوری طور پر جنگ بندی کے ذریعے ختم ہو‘۔ اس سلسلے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ کشمیر میں قیام امن کی قراردار پر عمل کیا جائے۔ انڈیا کے علاوہ چین، کیوبا، پاکستان، جنوبی افریقا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ویتنام نے بھی اقوام متحدہ میں لائی گئی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد میں تمام رکن ممالک، بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں سے روس کے قبضے کو تسلیم نہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ روس یوکرین سے اپنی تمام افواج کو فوری طور پر نکالے اور اسے بین الاقوامی سرحدوں کے اندر محدود رکھے۔ دو دن قبل چین نے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ روس کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ چین پہلے سے روسی فوجیوں کو یوکرین میں ملٹری انٹیلی جنس فراہم کر رہا ہے اور وہ روس کے لیے تیزی سے ایک اہم تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔ بی بی سی نیوز کے مطابق امریکا کا کہنا ہے کہ چینی فرموں نے پہلے ہی روس کو ’غیر مہلک مدد‘ فراہم کی ہے اور یہ کہ اس کے پاس نئی معلومات ہیں جن سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے چین ’مہلک مدد‘ بھی فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ ایسی مدد میں فراوانی چین کے لیے ’سنگین نتائج‘ کی حامل ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں اقتصادی پابندیوں کی ماہر ماریہ شگینا کہتی ہیں کہ چین نے کھلے عام روس کو ہتھیار فراہم نہیں کیے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خفیہ طور پر ہائی ٹیک مصنوعات فروخت کر رہا ہو جس کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ ’اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ چین ’سیمی کنڈکٹرز‘ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اکثر ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات میں شیل کمپنیوں کے ذریعے روس کو یہ مدد فراہم کی جاتی ہے‘۔ کچھ چینی کمپنیاں سویلین ڈرونز بھی سپلائی کر رہی ہیں یعنی یہ کمپنیاں فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کی ’گرے لائن‘ کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ امریکا میں قائم سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ چینی کمپنیاں روس کو طیارہ شکن میزائل ریڈار کے لیے الیکٹرونک پْرزے بھیج رہی ہیں۔ امریکا نے ایک چینی کمپنی پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس کمپنی نے یوکرین میں لڑنے والی روسی افواج (مرسنریز) کی حمایت میں سیٹلائٹ تصویریں فراہم کی ہیں۔
روس یوکرین جنگ کا کوئی اختتام عنقریب نظر نہیں آ رہا، اب ایک سال بعد ہم اس جنگ کے اثرات گراف کی مدد سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی بھی جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بی بی سی نے ایک امریکی تنظیم ایکلڈ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مطابق 10 اگست 2022ء تک ہلاکتوں کی تعداد 13000 سے زیادہ تھی۔ لیکن اب اس میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک 2 کروڑ 20 لاکھ لوگ اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ہمسایہ ممالک جا چکے ہیں جبکہ 70 لاکھ یوکرین میں داخلی طور پر پناہ گزین بن چکے ہیں۔ تاہم لاکھوں لوگ خاص کر کیف جیسے شہروں میں اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق 17 اگست 2022 تک 64 لاکھ لوگ یوکرین سے یورپ کے دیگر ممالک منتقل ہوئے۔ کچھ یوکرینی شہری روس بھی گئے ہیں اور روسی صدر پیوٹن کے مطابق 240000 عام شہریوں کو ماریوپل سے نکال کر روس لے جایا گیا ہے مگر صدر پیوٹن کا اصرار ہے کہ انہیں زبردستی روس منتقل نہیں کیا گیا۔ اس پوری جنگ میں سب سے زیادہ نقصان صر ف اور صرف عوام کا ہے۔