اسرائیل اور بھارت کے سائبر انٹیلی جنس رابطے

539

چین کا ایک جاسوس غبارہ امریکا میں کیا داخل ہوا کہ دنیا بھر میں شور مچ گیا۔ امریکا نے 4 فروری کو اس چینی غبارے کو اس وقت مار گرایا تھا جب وہ اس کی سمندری حدود کے اوپر محو ِ پرواز تھا۔ پنٹاگون کا دعویٰ ہے کہ یہ غبارہ، جسے امریکی پانیوں کے اوپر سے پرواز کرتے وقت مار گرایا گیا تھا، حساس فوجی مقامات کی جاسوسی کر رہا تھا۔ غبارے کا ملبہ جنوبی کیرولینا کے ساحل سے کچھ پرے ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ چین کا موقف ہے کہ یہ ایک موسمی غبارہ تھا جو راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اس نے اسے مار گرائے جانے پر ’شدید عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا ہے۔ امریکا کی تشویش نہایت بلندیوں پر ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومتوں کو یہ فکر نہیں ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا آپس میں سائبر انٹیلی جنس کے رابطے بڑھ رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بھارت جاسوس ادارے ’’را‘‘ اور اسرائیلی جاسوس ادارے ’’موساد‘‘ کے روابط گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت اپنا جاسوسی نیٹ ورک بڑھانے کے لیے بہت رقم خرچ کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ انٹیلی جنس آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی سائبر انٹیلی جنس آلات تیار کرنے والی دو کمپنیاں این ایس او اور کینڈیریو ’’را‘‘ کے نئے منصوبے کا ٹینڈر حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ لیکن بھارتی حکام پیگاس اسپائی وئر بنانے والی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اس لیے کہ 2021 میں امریکا نے پیگاسس اسپائی ویئر بنانے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او کو بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ پیگاسس کو مبینہ طور پر کچھ ریاستوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے فون کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ امریکا نے این ایس او گروپ کے ساتھ کاروباری معاملات پر پابندی لگا دی ہے۔ این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ’’مایوس‘‘ ہے، کمپنی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی نے ’’دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام‘‘ کرکے امریکی قومی سلامتی کو برقرار رکھنے میں مدد کی۔ امریکی حکام نے کہا کہ این ایس او گروپ اور ایک اور اسرائیلی فرم کینڈیریو نے’’امریکا کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف‘‘ کام کیا ہے۔ اسرائیل کے این ایس او گروپ کی طرف سے تیار کردہ اور بیچا جانے والا پیگاسس ملٹری گریڈ سپائی ویئر ایک زبردست سائبر ہتھیار کے طور پر ابھرا ہے۔
بھارت نے اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس فرم سے یہ غیراخلاقی جاسوس اسپائی ویر خریدا ہے۔ پیگاسس اسپائی ویئر کی خریداری پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے بھارتی عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نیویارک ٹائمز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ جولائی 2017 میں مودی حکومت نے پیگاسس کو اسرائیلی فرم سے خریدا ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2017 میں بھارت اور اسرائیل نے ہتھیاروں اور انٹیلی جنس سے متعلق آلات کے ایک پیکیج کی 2 ارب ڈالر میں فروخت پر اتفاق کیا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ پیگاسس اور میزائل سسٹم اس معاہدے کا مرکزی حصہ ہیں۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اپریل 2017 میں یہ خبر آئی تھی کہ بھارت نے اپنی فوج کو فضائی دفاعی میزائلوں کی فراہمی کے لیے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ساتھ 2 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ درخواست میں ایف آئی آر کے اندراج اور عوامی رقم کی وصولی کے لیے جو غیر قانونی معاہدے کے لیے ادا کی گئی ہے، نریندر مودی اور دیگر متعلقہ حکام کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کی استدعا کی گئی تھی۔ بھارت میں پیگاسس پروجیکٹ کی تحقیقات میں الزام لگایا گیا ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال وزراء، اپوزیشن لیڈروں، سیاسی حکمت عملی اور حکمت عملی سازوں، صحافیوں، کارکنوں، اقلیتی رہنماؤں، عدالت عظمیٰ کے ججوں، مذہبی رہنماؤں، منتظمین جیسے الیکشن کمشنرز اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سربراہوں پر کیا گیا تھا۔ (سی بی آئی)۔ ان میں سے کچھ فونز کا بعد میں تجزیہ کیا گیا اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔
پیگاسس پروجیکٹ 17 میڈیا تنظیموں نے مشترکہ تحقیقاتی صحافتی اقدام کے طور پر شروع کیا تھا۔ پیگاسس ایک اسپائی ویئر ہے جسے ایک اسرائیلی ٹیکنالوجی اور سائبر اسلحہ فرم این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے، یہ اسپائی ویر خفیہ طور پر موبائل فونز اور دیگر آلات میں ڈالا جاسکتا ہے، جو اینڈرائیڈ اور آئی او ایس کے زیادہ تر ورژن چلاتے ہیں۔ پیگاسس ٹیکسٹ میسجز پڑھنے، کالز کو ٹریک کرنے، پاس ورڈز جمع کرنے، لوکیشن ٹریکنگ، ٹارگٹ ڈیوائس کے مائیکرو فون اور کیمرے تک رسائی اور ایپس سے معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چونکہ پیگاسس کو اسرائیلی حکومت نے سائبر ہتھیاروں کے طور پر درجہ بند کیا ہے، اس لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت کے بعد صرف حکومتیں ہی اسپائی ویئر خرید سکتی ہیں۔ پیگاسس پروجیکٹ کے اقدام نے صحافیوں، اپوزیشن کے سیاست دانوں، کارکنوں اور کاروباری لوگوں پر حکومتوں کی طرف سے پیگاسس سپائی ویئر کے استعمال کی تحقیقات کی۔ 50,000 فون نمبروں پر مشتمل ایک ہدف کی فہرست لیک ہوگئی ، جسے ممکنہ طور پر اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا تھا، جس نے اس تحقیقات کو جنم دیا۔ ان میں سے 300 کا تعلق بھارت سے تھا۔ یہ 2021 کی بات ہے 50 ہزار ٹیلی فونوں کی فہرست میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کا ایک ٹیلی فون نمبر بھی شامل تھا۔ اگرچہ فہرست میں فون نمبر کی موجودگی پیگاسس کے استعمال کی تصدیق نہیں کرتی ہے اور صرف فون کی فرانزک جانچ اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ آیا اسپائی ویئر موجود تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ ان افراد کی تحقیقات کے لیے فون جمع کروائے جائیں جن پر حکومت کی جارحیت کا شبہ ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ دیا کہ ان کے پاس ایسے 29 فونز میں سے کسی پر پیگاسس کے استعمال کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے جن پر حکومت کی طرف سے جاسوسی کرنے کا شبہ ہے، یہ فون عدالت عظمیٰ کی طرف سے مقرر کردہ تکنیکی کمیٹی کے پاس جمع کرائے گئے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی نوٹ کیا۔ کمیٹی کا پتا چلا کہ ’’پانچ فونز میں انہیں کچھ مالویئر ملا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پیگاسس کا میلویئر ہے‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کی آزادی بھی حکومت کی خوشنودی کے ساتھ مشروط ہے۔
نریندر مودی کی حکومت نے پیگاسس اور میزائل سسٹم اس وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ اور انٹیلی جنس ٹولز کی اسرائیل سے خریداری کے تقریباً 2 ارب ڈالر کے سودے کا ’’مرکز‘‘ تھے۔ بھارت نے دراصل یہ اسپائی ویر پاکستان پر حملے کے لیے خریدا ہے یہ 2017 سے بھارت کے زیر استعمال ہے۔ 2020 میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری ایک بیان کے مطابق بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیز نے پاکستان کے خلاف متعدد سائبر جرائم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی جس میں حکومتی، فوجی افسران کے ذاتی موبائل اور تکنیکی آلات کی ہیکنک شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیز کے متعدد اہداف کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک آرمی نے ایسی سرگرمیوں کو ناکام بنانے کے لیے مزید ضروری اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سائبر سیکورٹی کے معیاری طریقہ کار (ایس اوپیز) کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔ پاکستان میں مقیم ایک تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں اس بات پر بحث کی گئی کہ پاکستان ، بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے سائبر تعاون سے پریشان ہے۔ بات چیت کرنے والوں نے سائبر سیکورٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام ڈومینز میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون پر زور دیا تاکہ باہمی تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔ جولائی 2021 میں، دفتر خارجہ اسلام آباد نے ایک بیان جاری کیا جس میں ’’بھارت کے بارے میں میڈیا رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر وزیر اعظم عمران خان سمیت غیر ملکیوں کے خلاف اسرائیلی سپائی ویئر پیگاسس کیاستعمال کو چھپایا جا رہا ہے‘‘۔ بیان میں ’’بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی، مسلسل اور وسیع پیمانے پر نگرانی، اور ذمے دار ریاستی رویے کے عالمی اصولوں کی واضح خلاف ورزی میں جاسوسی کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی‘‘۔ بھارت اور اسرائیل نے جنوری 2018 میں سائبر سیکورٹی تعاون پر ایک مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے تھے۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد سائبر سیکورٹی کے نام پر پڑوسی ممالک کی ناجائز طور پر جاسوسی کرنا ہے۔ جولائی 2020 میں، بڑھتی ہوئی بھارت۔ اسرائیل سائبر شراکت داری کے نتیجے میں سائبرسیکوریٹی کے میدان میں آپریشنل تعاون پر انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم اور اسرائیل کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سائبر سیکوریٹی کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے۔ بھارت کا مقصد پاکستان اور چین کی جاسوسی کرنا ہے لیکن اب امریکا نے ان اسرائیلی کمپنیوں پر پابندی لگا رکھی ہے اور بھارت کو جاسوسی کے نئے منصوبوں کے لیے ٹینڈر درکار ہیں لیکن اس کے پسندیدہ ملک کی کمپنیاں اس ٹینڈر میں شامل نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان پر پابندی ہے اور امریکا کو یہ بھی خطرہ ہے کہ بھارت سے یہ ٹکنالوجی کہیں چین نہ پہنچ جائے اور چین اس کا توڑ نہ تیار کرلے۔