ملک گیر الیکٹرک بریک ڈائون

372

پیر کی صبح ساڑھے سات بجے سے بجلی کا بریک ڈائون ہوا اور منگل کی صبح ساڑھے سات بجے تک مکمل بحالی نہیں ہوسکی، یہ بریک ڈائون پورے ملک پر محیط رہا، معمولی وقفوں سے بعض علاقوں میں جزوی بحالی ہوتی رہی، لیکن پھر بجلی جاتی رہی۔ ہم نان ٹیکنیکل آدمی ہیں، اس لیے بجلی کے پیداواری نظام اور ترسیلی نظام کی فنی باریکیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق شارٹ سرکٹ سے مراد ترسیلی نظام میں ایسی خرابی ہے کہ جس کے اثرات محدود نوعیت کے ہوں اور ان کی بحالی بھی مقامی نوعیت کی ہو۔
ہم قیاساً کہہ سکتے ہیں: بجلی کے پیداواری نظام کو جب نیشنل گرڈ میں شامل کیا جاتا ہے تو یا تو گرڈ اس نظام کے دبائو کو قبول نہیں کرپاتا، یعنی اچانک رسد طلب سے بڑھ جاتی ہے یا طلب سے کم ہوجاتی ہے، اس عدمِ توازن کی وجہ سے نظام مفلوج ہوجاتا ہے، یعنی بریک ڈائون ہوجاتا ہے، بریک ڈائون سے مراد نظام کی مکمل شکستگی۔ نیز یہ بات بھی ہم فنی طور پر سمجھ نہیں پائے کہ ایک جگہ ٹرپ ہونے سے سارا نظام کیسے مفلوج ہوگیا۔ ہم نے الیکٹریکل انجینئر راشد جمیل سے اس کی بابت معلوم کیا تو انہوں نے بتایا: ’’جب ایک جگہ سسٹم ٹرپ ہوجائے اور اُسے روکا نہ جاسکے تو بتدریج سارا نظام مفلوج ہونے لگتا ہے، اس کے لیے کنٹرول روم میں چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کا نظام ہوتا ہے، پیش بندی کا بھی میکنزم ہوتا ہے، کمپیوٹر پر انجینئر مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر کہیں خرابی پیدا ہوجائے تو اُس کے سبب بتدریج پورے نظام کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے اُسے وہیں پر موقوف کردیا جاتا ہے‘‘، پس سوال یہ ہے: آیا ہمارے ہاں یہ نظام ہے، اگر ہے تو اس ساری ناکامی کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے‘‘۔
پیر کو جب پورے ملک میں یہ بریک ڈائون ہوا تو کوئی شعبے کا ایسا ماہر الیکٹرونک میڈیا پر سامنے نہیں آیا کہ وہ قوم کو اس مسئلے کی باریکیوں، نقائص اور خامیوں سے آگاہ کرے اور یہ کہ اس کی بحالی کتنی دیر میں اور کس حد تک ممکن ہے، اس لیے وزیر توانائی خرم دستگیر بھی اندازوں اور تخمینوں پر بات کرتے رہے، اُن کے پاس کوئی مکمل فنی معلومات تھیں، نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ قوم کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے اور یہ بتاتے کہ نظام کب تک مکمل بحال ہوجائے گا۔
2008-13 کے پیپلز پارٹی دورِحکومت میں بعض علاقوں میں روزانہ سولہ سے بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ رہتی تھی، اس لیے مسلم لیگ ن کی حکومت نے نہایت عجلت سے بجلی کی پیداوار کے نئے کارخانے بنائے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بجلی کی طلب بڑھتی رہی، لیکن بجلی کی پیداوار کے منصوبے نہیں بنائے گئے اور طلب ورسد میں بہت بڑے گیپ کا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی کے دور میں عروج کو پہنچ گیا۔ 2018-22 پی ٹی آئی کی حکومت نے بجلی کا نیا پیداواری نظام بنایا، نہ موجودہ کارخانوں کو استعداد کے مطابق چلانے کا انتظام کیا اور نہ بجلی کے ترسیلی نظام کو اپ گریڈ کیا، اس ساری ناقص کارکردگی کے مابعد اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ہر دور میں عوام کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ مسندِ اقتدار پر فائز حکومتِ وقت کو تمام ناکامیوں کے لیے موردِ الزام ٹھیراتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ نظامِ حکومت اور اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں ایک تسلسل کانام ہے، یہ آنِ واحد میں عالَمِ غیب سے نمودار نہیں ہوتیں، قابل اجمیری نے کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہرحکومت پر جب افتاد آتی ہے تو وہ وقت گزاری کے حیلے اور تدبیریں اختیار کرتی ہے، انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کا اقتدار کب تک رہے گاکہ اُس کے لیے وہ طویل منصوبہ بندی کریں اور حقائق کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا کریں، مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں اور طویل المدت منصوبے بنائیں۔ کسی بھی شعبے کے معاشی منصوبے نہ راتوں رات بن سکتے ہیں اور نہ پلک جھپکتے میں تکمیل پاسکتے ہیں، یہ طویل المدت منصوبہ بندی کا کام ہے، جبکہ ہمارے وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کی بے یقینی اور عدمِ استحکام اِس کا متحمل نہیں ہوپاتا۔ نیز یہ بات ہم نہیں سمجھ پائے کہ اگر کسی ایک جنریٹنگ سسٹم سے بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں ڈالی جارہی ہو اور اُس میں کوئی خرابی یا عدمِ توازن پیدا ہوجائے تو پورے ملک کا سسٹم کیسے ناکام ہوگیا۔
آپ جس شہر کا بھی جائزہ لیں، وہاں جو بجلی کا پیداواری اور ترسیلی نظام ہے، وہ موجودہ آبادی کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں کوئی بھی کام طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے اور نہ حکومتوں کے پاس اس قدر وسائل ہوتے ہیں۔ اب تو ہماری معیشت جاں بلب ہے، اُس میں اپنی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کی سکت ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ دس بیس سال آگے کی ممکنہ طلب کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ جو ناقص وناتمام نظام چل رہا تھا، خان صاحب کو جب احساس ہوا کہ اُن کی حکومت کسی وقت بھی جاسکتی ہے تو انہوں نے معیشت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا، آئی ایم ایف سے معاہدے کیے، اُن کی کڑی شرائط تسلیم کیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پورا مالیاتی نظام اُن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا، پھر اچانک اس سارے عہدوپیمان سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کے برعکس اقدامات شروع کردیے، ڈیزل اور پٹرول کے دام کم کردیے۔ اس میں یہ بدنیتی کارفرما تھی کہ آنے والی حکومت جب آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے اقدامات کرے گی تو وہ اپنی مقبولیت کھودے گی اور ایک بار پھر ہمارے لیے ماحول سازگار ہوجائے گا، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ملک کا کیا بنے گا۔ ہمارے سیاست دان اتنے کوتاہ نظر ہیں کہ اُن کے نزدیک اگر وہ مسندِ اقتدار پر ہیں تو پاکستان قائم رہنا چاہیے اور اگر ان سے اقتدار چھن جاتا ہے تو اُن کی بلا سے یہ ملک رہے یا نہ رہے۔
پس ہم جیسے اناڑی اور غیرفنی افراد کا بھی وجدان اور عقلِ عام یہ بتاتا ہے کہ سب سے پہلے بجلی کے موجودہ پیداواری نظام اور کارخانوں کو اووَرہال کیا جائے، اُن کو اپنی پوری پیداواری استعداد پرلایا جائے، تعمیر ومرمت کی جائے، ناقص پرزوں کو تبدیل کیا جائے، ایندھن کا حسبِ ضرورت انتظام کیا جائے، بجلی کے ترسیلی نظام کی بتدریج مرمت کر کے اُس کی استعداد کو بڑھایا جائے تاکہ آئے دن کے مکمل بریک ڈائون اور شارٹ سرکٹ کے خطرات کم سے کم ہوسکیں۔ اُس کے بعد آئندہ پچیس سال کی طلب کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ شہروں کے نئے ماسٹر پلان بنائے جائیں، اس سلسلے میں سٹیلائٹ سے مدد لے کرجیو فینسنگ کی جائے، جب تک موجودہ ہائوسنگ سوسائٹیاں اور اسکیمیں مکمل شہری سہولتوں کے ساتھ اسّی فی صدآباد نہ ہوجائیں، شہروں کی توسیع پر پابندی لگادی جائے۔
یہ حقیقت بھی منصوبہ سازوں کے علم میں ہونی چاہیے کہ جس رفتار سے زندگی مشینی بنتی جارہی ہے، اُسی رفتار سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے، سڑک پرچلنے والی پرائیویٹ کاروں، موٹرسائیکلوں، بسوں، ٹرکوں، سامان بردار ٹرالروں اور شہروں کے مابین ٹرانسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے، اُسی تناسب سے پٹرول اور ڈیزل کی طلب بڑھ رہی ہے۔
جس رفتار سے ہر گھر میں ڈیپ فریزر، ریفریجریٹر، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر لیپ ٹاپس، گرینڈنگ مشینوں، موبائل فون، الیکٹرک پنکھوں، استریوں، ہیٹنگ سسٹم اور ائرکنڈیشنرز میں اضافہ ہورہا ہے، اُسی رفتار سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے، تقریباً تمام گاڑیاں ائرکنڈیشنڈ آرہی ہیں اور اسی تناسب سے پٹرول، ڈیزل اور بیٹریزکی طلب بڑھ رہی ہے، یہی صورتِ حال دفاتر کی ہے۔
جدید سہولتوں نے انسان کو تن آسان، کم کوش، کاہل اور آرام طلب بنادیا ہے، گرم وسرد موسم کا مقابلہ کرنے کی ہمت کم سے کم بلکہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز میں گھرانوں میں بزرگوں کا وجود باعث ِ برکت اور اُن کی خدمت کو سعادت سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کا انسان مغرب کی طرح تن آسان اور خود غرض ہوتا جارہا ہے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہمارے ہاں چند دہائیوں سے لاوارث بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے اولڈ ایج ہائوسز بنائے جارہے ہیں، جہاں ان کی بقائے حیات کے لیے ضرورتوں کا انتظام ہوتا ہے، پہلے ان کا تصور نہیں تھا، لیکن اب یہ ادارے قائم ہورہے ہیں اور معاشرے کی ضرورت ہیں۔ آپ اولڈ ایج ہائوسز میں جاکر بوڑھے مردوں اور عورتوں کی دردناک داستانیں سنیں تو آپ ہل کر رہ جائیں گے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے بجائے جہالت کے فروغ میں اضافہ کر رہا ہے، لوگوں کو حقیقت پسند بنانے کے بجائے ہیجان انگیزی اور جذباتیت میں اضافہ کیاجارہا ہے، بے معنی اور بے مقصد سیاسی مباحثے کراکے معاشرے کی مجموعی ساخت اور پورے ڈھانچے کو تار تار کیا جارہا ہے، پہلے سے منتشر اور تقسیم شدہ قوم کے شیرازے کو مزید بکھیرا جارہا ہے۔ خان صاحب کے بھاشن، گزشتہ دس سال سے سنتے چلے آرہے ہیں اور ایک ہی جیسے فرمودات سن سن کر اُبکائی آنے لگتی ہے، ایک ہی جیسی باتوں کی روز جُگالی کی جاتی ہے، بہتر تو یہ ہوتا: اُن کے فرمودات کو ریکارڈ کرلیا جاتا اور کوئی نئی بات ہوتی تو ضرور اُس سے عوام کو فیض یاب کیا جاتا، لیکن روز روز کے تکرار در تکرار کی اذیت سے نہ گزارا جاتا۔
اُن کا حال قرآنِ کریم میں بیان کردہ اُس عورت کا سا ہوگیا ہے: ’’اور تم اُس عورت کی مانند نہ ہوجائو، جس نے اپنا سوت مضبوطی سے کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کردیا‘‘۔ (النحل: 92) اپنی انا کی تسکین کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل اور پھر فوری نئے انتخابات کا مطالبہ، استعفے، ان کی فوری منظوری کے مطالبے اور منظوری کا مرحلہ آیا تو ندامت اور پشیمانی اور واپسی کے لیے تگ ودو، پہلے عدالت عظمیٰ سے اپیل کہ استعفے کیوں منظور نہیں کیے جارہے اور اب اپیل کہ منظورکیوں کیے گئے، کسی دانا نے کہا تھا: ’’چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘۔ دانا لوگ کہتے ہیں: ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘، یعنی کسی کام سے پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچو، نفع نقصان کا تخمینہ لگائو اور پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرو، عربی کا مقولہ ہے: ’’کسی ابتلا میں داخل ہونے سے پہلے اس سے نکلنے کی تدبیر کرو‘‘۔ ہمارے سیاسی اثاثے میں جو نادر اور انمول قیادت کا ذخیرہ ہے، اُن سب کا حال اُنیس بیس، اٹھارہ بیس اور سولہ بیس کے فرق سے ایک جیسا ہے۔