حقائق کا سامنا

1430

قارئین کرام، یہ امر خوش آئند ہے کہ چند روز پہلے جو نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا اس کے نتیجے میں جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی کسی کو بھی قومی سلامتی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرأت وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔ اجلاس نے دہشت گردی کے خلاف شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے اجتماعی دعا کی۔ اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پوری قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بیانیہ پر متحد ہے، پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس 2جنوری 2023 تک جاری رہا جس میں سامنے آنے والی تجاویز کی روشنی میں مزید فیصلے کیے جائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس انتہائی ضروری تھا کیونکہ معاشی بحران داخلی صورت حال اور شمال مغرب میں دہشت گردی کے واقعات نے صورت حال کو نیا رخ دے دیا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ عالمی صف بندیاں تبدیل ہو رہی ہیں معاشی اور اقتصادی بلاک نئی صف بندیوں کے مطابق اپنی پالیسیاں تیار کر رہے ہیں عالمی مالیاتی نظام میں اپنی جگہ برقرار رکھنے اور جیو اسٹرٹیجیکل پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کے لیے روایتی پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ شمال مغرب میں پاکستان کی نرم اور ڈھیلی پالیسی اب نقصان کا باعث بن رہی ہے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کو مدنظررکھ کر داخلی معاشی اور نظریاتی بیانیے میں تبدیلیاں ضروری ہو چکی ہیں دہشت گردی نے جو شکل اختیار کر لی ہے اسے اب سرد جنگ کے تناظر میں نہیں دیکھاجا سکتا اور نہ ہی اس بیانیے کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
آج پاکستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اسے پرانے زمانے کے پنڈاریوں کی غارت گری قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس دہشت گردی کی بنیاد کسی نظریے پر قائم نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے اداروں کو اس ناسور کا خاتمے کرنے کے لیے کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ گزشتہ روز خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ٹکواڑہ پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق چوکی پر 20 کے قریب دہشت گردوں نے علی الصباح 3 اطراف سے حملہ کیا، راکٹ لانچر، دستی بموں اور دیگر جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، میڈیا کے مطابق دو سے اڑھائی گھنٹے تک حملہ جاری رہا۔ پولیس نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور دہشت گردوں سے لڑتے رہے۔ ڈی پی او نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس نے اپنی عزت و وقار کے لیے لڑنے کے لیے بے مثال ہمت اور عزم کا مظاہرہ کیا اور ٹکواڑہ چیک پوسٹ پر یہ حملہ ڈیرہ کی تاریخ میں دہشت گردوں کی جانب سے سب سے بڑا اور منظم حملہ تھا۔ دہشت گرد پولیس بلڈنگ پر قبضہ کرکے بڑی تباہی مچانا چاہتے تھے مگر ہم نے ان کے عزائم ناکام بنا دیے۔ کلاچی سمیت پورے ضلع کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور پولیس کسی صورت دہشت گردوں کے عزائم کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ادھر اسلام آباد میں پولیس حکام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ممکنہ دہشت گردی کے خدشہ کی رپورٹس ملنے پر سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ممکنہ خودکش بمبار کی تصویر بھی جاری کردی گئی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انٹیلی جنس ذرایع سے اطلاع ملی کہ ممکنہ دہشت گرد ذاکر خان ولد لائق جس کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے، دہشت گردی کے لیے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرسکتا ہے۔ وفاقی پولیس ذرایع کے مطابق ممکنہ طور پر اسلام آباد کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کی جمعہ کو اسلام آباد پولیس حکام کو رپورٹ ملنے پر وفاقی پولیس حکام نے فُول پروف سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں سیف سٹی کیمروں والی پٹرولنگ گاڑیوں کے گشت کے نظام کو مذید فعال اور موثر بنا دیا گیا ہے جب کہ شہر کے اہم داخلی راستوں پر پولیس ناکے لگا دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ابہام پیدا کیا جاتا رہا ہے طالبان کی ساخت نظریات اور حکمت عملی کے حوالے سے بھی پاکستان میں ابہام پیدا کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو گا جہاں ایسے بیانیے کو پروان چڑھایا گیا جو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو گلوری فائی کرنے کا باعث بنے۔ پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اس ابہام کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس ابہام کو مزید گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج بھی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے یکسوئی نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کوئی ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جس سے ان کے کارکنوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے لڑنے کی ہمت پیدا ہو۔ اسی طرح ملک کی مذہبی سیاسی قیادت نے بھی دہشت گردی کے حوالے سے موثر کردار ادا نہیں کیا۔ افغانستان میں جو کچھ ہوتا رہا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر افغانستان سے زیادہ پاکستان میں بحث ہوتی ہے۔ پاکستان کے اندر ایک ایسی بااثر لابی بھی ہے جو افغانستان کے ساتھ نسلی اور ثقافتی رومانس میں مبتلا ہے اس لابی نے اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر افغانستان کے ایشو پر پاکستان کی پالیسی میں کمزوریاں پیدا کیں پاکستان کے اسٹرٹیجک ریسرچ کی بنیاد بھی روایت پرستی پر کھڑی کی گئی۔ افغانستان کی تاریخ اس ملک کے سماجی ڈھانچے ریاستی سسٹم نسلی اور سیاسی طبقات کے حوالے سے ریسرچ اور نتائج میں خامیاں موجود رہی ہیں اور انہیں دور کرنے کی ابھی تک کوشش نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح شمال مغربی پاکستان میں ثقافتی اور قومی اکائیوں کا جائزہ بھی روایات کی بنیاد پر لیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی قائم ہے۔ جغرافیائی حقائق کو نظرانداز کر کے پالیسیاں تشکیل دی گئیں جن خیالات و نظریات اور مفروضوں کی بنیاد پر شمال مغرب میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی وہ غیرحقیقی ہونے کی بنیاد پر ناکام ثابت ہوئے اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ٓ