بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش اور معاشی مسائل

582

وطنِ عزیز میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز تاحال باہم برسرپیکار ہیں۔ ملک کی معیشت ڈانوا ڈول ہے، سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ پریشان ہے، دو صوبوں میں انتظامیہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہے، شمال مغربی سرحد پر خطرات منڈلا رہے ہیں، ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم نظر نہیں آتا، خیبر پختون خوا میں ٹی ٹی پی آزادانہ کارروائیاں کررہی ہے جب کہ صوبائی حکومت انہیں روکنے میں ناکام ہے بلکہ کئی معاملات میں اس نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک میں بیرونی ہی نہیں بلکہ مقامی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے اور برآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے متاثرہ آبادی کا بڑا حصہ سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملک میں طوفانِ سیاست برپا ہے جس میں سیلاب زدگان کی آہ و پکار کہیں دب گئی ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں معاشی سرگرمیاں متاثر کی ہیں، جو پہلے ہی بڑے مالی اور بیرونی عدم توازن اور دہرے ہندسے کی افراط زر سے نمٹنے کے لیے استحکام کی کوششوں سے متاثر تھی۔ بلند افراط زر، اور غیر مستحکم جی ڈی پی کی نمو میں کمی آنے کی توقع ہے۔ سیلاب نے کپاس، چاول اور ملک میں اگائی جانے والی دیگر اہم فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور سیلاب کی وجہ سے آنے والے زرعی سیزن کو بھی خطرہ ہے۔ سیلاب سے صنعت خاص طور پر ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ اور خدمات، تھوک تجارت اور نقل و حمل پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان کے لیے مالی سال 2023 میں کمزور کرنسی، گھریلو توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ سیلاب سے فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات اور سپلائی میں خلل عارضی خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ زیر آب آنے والا کثیر زرعی رقبہ ناقابل کاشت ہونے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہونے سے آنے والے چند ماہ میں جن مسائل کا سامنا کرنا رہا ہے، ان میں سرفہرست بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جہاں درآمدی بل میں اضافہ ہوا ہے، وہیں برآمدات میں ہونے والی مسلسل کمی سے بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے ورلڈ بینک نے آئندہ مالی سال میں پاکستان کے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح دو فی صد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے پاکستان کو 2050 تک قومی پیداوار میں مسلسل کمی کا سامنا رہے گا۔ اس تنزلی کا تخمینہ اٹھارہ سے بیس فی صد تک لگایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست ہو اور معیشت بھی بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ معاملات دگرگوں ہیں، شدید پریشانی ہے، عامتہ الناس کی زندگی اور اْس کے شب و روز درست نہیں ہیں۔ آٹا، دال، چاول، چینی ہی نہیں، بجلی گیس اور تیل بھی اْس کی دسترس سے نکل چکے ہیں۔ قدرِ زر پست سے پست تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ عام انسان کی قوت خرید جامد ہو چکی ہے۔ معاشی معاملات کی فوری بہتری نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یوکرین کی جنگ بھی ہے جس نے عالمی منظر پر بے یقینی کی صورت حال طاری کر رکھی ہے۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 6.7 بلین ڈالر پر آ گئے ہیں، جو تقریباً چار سال میں اس کی کم ترین سطح ہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ پاکستان کا معاشی بحران بنیادی طور پر اس سال کے تباہ کن سیلاب، یوکرین کی جاری جنگ اور عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔
پاکستان نے دو ہفتے قبل اپنے میچورنگ بانڈز اور دیگر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 1بلین ڈالر کی ادائیگی کی جس کے نتیجے میں غیر ملکی ذخائر میں کمی واقع ہوئی پاکستان کو آنے والے مالی سال میں اپنے غیر ملکی قرض دہندگان کو تقریباً 33بلین ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اس ادائیگی کو پورا کرنے کے لیے ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 500 ملین ڈالر موصول ہوئے، ایک دوست ملک سے 3بلین ڈالر کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب ملک کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی امداد کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے مالی سال کے لیے قرض کی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے کافی ذخائر کو یقینی بنانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں، جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کے لیے دولت بیرونِ ملک منتقل کردی ایسی دولت وطن عزیز میں لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفا نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لیے اور بعد میں قرض معاف کرا لیے۔ بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں جی ڈی پی میں کمی آئی ہے اور فی کس شرح کم ہوئی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں 10سال کے عرصے میں نمو منفی رہی ہے۔ اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ قومی معیشت کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اْس مقام تک جا پہنچی ہے جہاں سیاسی عدم استحکام کے سوا کوئی اور نتیجہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لیے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں جو سیاست ہورہی ہے، اسے کسی طرح بھی سراہا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں معروضی حالات کے مطابق نہیں ہیں۔ ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔