اسلامی ریاست اور سیکولر ریاست

474

فیفا ورلڈکپ 2022 اپنے اختتام کو پہنچا۔ کسی مسلم ملک میں ہونے والا یہ پہلا ورلڈ کپ تھا، میزبان ملک کی حیثیت سے یہ قطر کا امتحان بھی تھا۔ جب کہ ساری دنیا کی نظریں اس جانب مرکوز تھیں، کھیل کے میدانوں میں قرآن پاک کی تلاوت، اذان کی آوازیں نماز کے مناظر نے جہاں مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی وہیں مغرب کا جانبدار چہرہ بہت واضح ہو کر سامنے آیا۔ اس ورلڈکپ کو متنازع بنانے کی بھرپور کوششیں شروع ہوگئیں۔ بی بی سی نے تاریخ میں پہلی دفعہ فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ اور قطر میں انسانی حقوق کو موضوع بحث بنایا۔ وجہ قطر کے وہ اقدامات تھے جن میں ایل جی بی ٹی پر سخت موقف، شراب کی کھلے عام فروخت اور پینے پر پابندی تھی۔ قطر نے اسلامی روایات کے احترام پر اصرار کیا۔ اور ظاہر ہے کہ قطر کے اقدامات اگر بہت سخت ہوتے تو شراب پر مکمل پابندی ہوتی لیکن ایسا نہیں تھا۔ لیکن کئی دہائیوں سے بین الاقومی برادری کی جانب سے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے عمل کی وجہ سے قطر کی ان معمولی کوششوں کو مسلم دنیا میں خوشگوار جھونکے کی طرح لیا گیا۔
مسلم دنیا میں جہاں ریاستی سطح پر اسلام کے دفاع کی ہر کوشش کو سراہا جاتا ہے وہاں ان ہی ممالک میں موجود اسلام بیزار طبقے کی پریشانی بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ ان کی اکشریت ہے تو مسلمان لیکن اسلام سے ان کا تعلق واجبی سا ہے۔ یہ قطر کے ’’جبر‘‘ پر بہت پریشان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر مسلم ملک ایسے جابرانہ اقدامات کرے گا تو غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس دلیل کی بنیاد پر ایسا بیانیہ ترتیب دیا گیا کہ بہت سے نوجوان یہ سوال کرتے نظر آئے کہ ’’قطر میں غیر مسلم خواتین کو حجاب پہنائے گئے اب اگر یورپ میں مسلم خواتین کے حجاب اتارے گئے تو کیا ہم اعتراض کی پوزیشن میں ہوں گے؟‘‘
اول تو قطر میں جبراً حجاب نہیں پہنائے گئے بلکہ خواتین کو تحفتاً دیے گئے ہیں، لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جبراً ایسا کیا گیا ہے تو قطر ایسا کرنے میں حق بجانب ہے۔ کیونکہ وہ ایک مسلمان ملک ہے اور اس کا ریاستی مذہب اسلام ہے اس کے دستور میں درج ہے کہ قانون سازی شریعت کی بنیاد پر ہوگی اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ اسلام میں لباس کی حدود و قیود موجود ہیں۔ گھر کی چار دیواری کے باہر اسلامی ملک کے شہری کو اسلامی روایات کا خیال رکھنا ہوگا لہٰذا ایک ایسا ملک اپنے دستور کی پاسداری کرتے ہوئے روایات کا احترام کرنے پرمجبور کرنے کا پورا حق رکھتا ہے، جبکہ وہ یورپی ریاستیں جو مسلم خواتین کو حجاب اتارنے پر مجبور کررہے ہیں وہ سیکولر ممالک ہیں اور سیکولر ازم میں شہریوں کو پابند نہیں کیا جاسکتا نہ ہی ان کی مذہبی آزادی پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ نشانہ صرف اسلام ہی ہے۔ اب یا تو یہ ممالک واضح کردیں کہ یہ سیکولر نہیں ہیں۔ دستور میں تبدیلی کردیں یا پھر سیکولر روایات کی پاسداری کریں۔
اگر آپ ویٹی کن سٹی جاتے ہیں تو جان لیجیے یہ ایک کرسچن ریاست ہے یہاں داخلے کے لیے بھی لازم ہے کہ پورا لباس پہنا جائے۔ مختصر لباس، خصوصاً گھٹنوں کے اوپر لباس زیب تن نہیں کیے جاسکتے۔ کیتھولک اقدار سے متصادم زیورات اور ٹیٹوز کے ساتھ بھی داخلہ منع ہے۔ لہٰذا ہماری قوم کے جوانوں کو کنفیوز نہ کیا جائے۔ ہمیں دین پر عمل کرتے ہوئے احساس شرمندگی کے بجائے احساس تفاخر کو اپنانا ہوگا۔
ہمارے ’’نمائشی مہربان‘‘، مسلمانوں کو یہودیوں کی کامیابیوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، کیا وہ نہیں جانتے کہ یہود کے لیے سب کچھ ان کا مذہب ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ دنیا میں اگر کوئی قوم مذہب کے نام پر یکجا ہے، یعنی جن کے پاس مذہب اور قوم ہم معنی ہے وہ یہود ہیں۔ ان کی طاقت کا اصل راز ہی یہ ہے جب کہ وہ تعدادا میں بہت کم ہیں۔ ذرا سوچیں کہ تقریباً دو ارب مسلمان جب اپنے مذہب پر متحد ہوجائیں اور اسلامی تعلیمات پر ڈٹ جائیں تو دنیا کو ہماری روایات کا احترام کرنا ہی پڑے گا۔ پھر کوئی ’’بی بی سی‘‘ کسی ورلڈکپ کا بائیکاٹ نہیں کرسکے گا، نہ ہی کسی ٹیم کی جرأت ہوگی کے وہ ہم جنس پرستوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج کرے۔