ہماری خالہ انیس

682

عموماً یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، یہ بات بڑی حد تک دْرست اور قابل فہم ہے، لیکن اس کے باوجود ماں ایسے عظیم رشتے کا اگر کوئی نعم البدل ہو سکتا ہو تو وہ صرف ایک ہی رشتہ ہے اور وہ ہے خالہ کا رشتہ۔
خالہ انیس فاطمہ یوں تو ہماری والدہ کی خالہ زاد بہن تھیں لیکن ہمارے لیے ماں سے کم نہ تھیں۔ محبت، شفقت، ایثار اور مہمانوازی کے اوصاف حمید کی وہ مجسم تصویر تھیں۔ ہماری اْن سے بے پایاں اْنسیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ہماری والدہ سے کافی مشابہت رکھتی تھیں اور اْن کی آواز بھی والدہ سے بہت ملتی تھی۔ خالہ انیس نے شادی کے بعد تمام عمر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ میں گزاری، ہمارے خالو ناصر حسین کاظمی ایک انتہائی دبنگ جرأت مند اور نہایت ایماندار تھانیدار تھے۔ محکمہ پولیس سے متعلق قوانین اور پولیس کو حاصل اختیارات کے وہ حافظ سمجھے جاتے تھے۔ اور ان قوانین اور اختیارات سے اْنہوں نے کبھی تجاوز نہیں کیا، یہی وجہ تھی کہ اْن کے اعلیٰ افسران بھی نہ صرف اْن کی قابلیت، اور ایماندری کے معترف تھے۔ خالو کا کنبہ بڑا تھا اور آمدنی قلیل تھی لیکن اْس آمدنی میں بھی خالہ گھر کے جملہ اخراجات نہایت خوش اْسلوبی سے پورے کرتیں۔ اْنہوں نے کبھی کسی سے معاشی تنگی کی شکایت نہیں کی۔
زمانہ طالب علمی میں سالانہ چھٹیوں میں ہمارا چنیوٹ جانا ہوتا تھا۔ جب ہم چینیوٹ جاتے تو عموماً اْن سے بھی ملاقات ہو جاتی اور پھر ہمارا زیادہ تر وقت انہی کے ساتھ گزرتا۔ خالہ کے سب سے بڑے بیٹے جو چند سال قبل پنجاب پولیس سے بحیثیت ڈی ایس پی سبکدوش ہوئے ہیں میرے ہم عمر ہیں۔ اپنے ہم عمر نوجوانوں میں وقت گزارنے کے بجائے اْس وقت میرا زیادہ تر وقت خالو کے ساتھ گزرتا۔ اس کی وجہ ایک تو اْن کی محبت اور شفقت تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ بہت دلچسپ اور معلومات افزا گفتگو کرتے تھے۔ میں ہفتوں اْن کے گھر ٹھیرتا اور یہ احساس ہی نہ ہوتا کہ اپنے گھر میں نہیں ہوں بلکہ حقیقتاً گھر سے زیادہ آرام سکون اور خوشی مجھے خالہ کے گھر میں محسوس ہوتی تھی۔ خالہ مزے مزے کے کھانے پکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، قدرت نے اْن کے ہاتھ میں ذائقہ جیسے سمود یا تھا، اْن کے پکا ئے ہوئے سادہ دال چاول بھی پلاو کا مزہ دیتے تھے۔ مجھے اْن کے ہاتھ کے پکائے ہوئے دیسی گھی کے خستہ اور لذیز پراٹھے بہت مرغوب تھے جو صبح سات بجے دو تلے ہوئے دیسی انڈوں کے ساتھ ناشتے میں ملتے تھے۔ ناشتے کے بعد ہم یا تو خالو سے مزے مزے کے دلچسپ قصے سْنتے یا پھر اْن کے بچوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکل جاتے۔ قریب ہی ریلوے اسٹیشن واقع تھا، کبھی وہاں جاکر ریلوں کی آمد ورفت کا مشاہدہ کرتے، کبھی کھیتوں میں چلتے ہوئے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی سے نہاتے، کبھی کماد کے کھیتوں میں چلے جاتے اور گنے توڑ کر چْوستے، کماد کے کھیتوں ہی میں گنے کے شیرے کو ایک بڑے سے کڑھائو میں ڈال کر خوب پکایا جاتا تھا اور اْس سے گْڑ بنایا جاتا تھا، ہم سب وہ گرم گرم گْڑ مز ے لے لے کر کھاتے۔ یہاں یہ بیان کرنا غیر ضروری نا ہوگا کہ چک جھمرہ اْس دور میں گڑکی ایک بڑی منڈی کے طور پر بھی مشہور تھا اور اسی منڈی سے گْڑ آس پاس کے گائوں و یہات کو سپلائی کیا جا تا تھا۔ چک جھمرہ فیصل آباد کی ایک چھوٹی تحصیل ہے، وہاں کی آبادی زیادہ سے زیادہ 30-25ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور چونکہ خالو وہاں کی ایک با اثر، معزز اور مقبول شخصیت تھے لہٰذا لوگوں کی ایک بڑی تعداد اْن سے اور اْن کے بچوں سے واقف تھی اور اْن کی عزت کرتی تھی۔ اکثر بازار سے گزرتے ہوئے کسی نہ کسی دوست یا واقف کار سے ان کا آمنا سامنا ہوجاتا اور وہ ہمیں اصرار کر کے کسی چائے کے اسٹال پر لیجاتے اور خاطر مدارات کرتے۔ ایک دن ہم اکیلے ہی شام کے وقت بازار کی طرف نکل گئے۔ ایک چائے کے اسٹال پر چائے تیار ہورہی تھی اْس کی مہک محسوس ہوئی تو ہمیں بھی چائے کی طلب ہوئی، وقت بھی چائے کا تھا لہٰذا ہم اسٹال پر چائے پینے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی، واقعی خوش ذائقہ چائے تھی۔ چائے پی کر پیسے دینے چاہے تو چائے والے نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ شاہ صاحب کے مہمان ہیں لہٰذا ہمارے بھی مہمان ہوئے اور مہمان سے کیسے پیسے لے سکتے ہیں یہ تھی وہاں کے ایک عام اور غریب آدمی کی ایک اجنبی شخص کے لیے لحاظ و مروّت۔ خالہ انیس کو اللہ نے چھے بیٹوں اور ایک بیٹی کی شکل میں لائق اور فرمانبردار اولاد کی نعمت سے نوازا تھا۔
خواتین میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ جاو بیجا اپنے شوہروں کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں، لیکن ہم نے کبھی اپنی خالہ کو شوہر کی شکایت کرتے نہیں سْنا۔ اسی طرح خالو نے بھی ہمیشہ اْن کی عزت اور قدردانی کی اور کبھی اْن کی کسی بات کو رد نہیں کیا۔ ہماری والدہ سے خالہ کی بہت دوستی اور بے تکلفی تھی۔ والدہ کی شدید علالت کے زمانے میں وہ کراچی ہی میں تھیں اور اْن کی عیادت کرنے اکثر ہمارے گھر آتی رہتی تھیں۔ والدہ کو غسل و کفن اْنہوں نے ہی دیا تھا اور اْس موقع پر ہم سے کہا تھا کہ آج سے میں تمہاری ماں ہوں اور واقعاً اْنہوں نے ہمیں وہی محبت اور شفقت دی جو ایک ماں ہی اپنی اولاد کو دے سکتی ہے۔ خالہ ایک نفیس طبیعت کی خوش مزاج ملنسار اور مہمانواز خاتون تھیں۔ اولاد بھی نہایت فرما نبردار تھی، تمام گھریلو معاملات کی بھی وہی نگران تھیں شوہر کی طرف سے بھی اْنہیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خوشیوں اور غموں کا چولی دامن کا ساتھ ہے زندگی دھوپ چھائوں کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے۔ قریباً بتیس سال قبل جب اْن کے شوہر کا انتقال ہوا تو وہ ٹوٹ سی گئی تھیں، چند سال بعد محبت کرنے والی ماں بھی دنیا سے رْخصت ہو گئیں پھر کچھ عرصے بعد بھائی اور بہن کی جدائی کے صدمے برداشت کیے۔ سب سے گہرا صدمہ اْنہیں تب پہنچا جب سڑک کے ایک حادثے میں اْن کا اٹھارہ سال کا جوان پوتا جسے چند سال بعد اپنے باپ کا بازو بننا تھا منوں مٹی تلے جا سویا۔ پے در پے صدمات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ نوجوان پوتے کی بے وقت اندوہناک موت کے بعد اْنہیں اپنے ایک جوان بیٹے اور جوان داماد کی بے وقت اموات کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ ان پے در پے صدمات نے اْنہیں اندر سے کھوکھلا کردیا جس کے نتیجے میں اْن کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی۔ لیکن وقت پورا ہو چکا تھا۔ چند سال قبل برین ہیمرج کے حملے میں وہ پوری طرح بستر سے لگ گئیں اور اْسی حالت میں 13اکتوبر 2022ء کی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اْن کی دائمی جْدائی سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پرْ نہیں ہوسکتا کیونکہ اْن کا نعم البدل اب کوئی نہیں رہا۔