تھر کول سے استفادے کی ضرورت

581

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے تھرکول بلاک ٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے 300 سال تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 10 روپے فی یونٹ تک ہو گی، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تھر کا کوئلہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے چار ہزار میگا واٹ کے بجلی پلانٹ لگے ہوئے ہیں جب کہ اس وقت لگنے والے کوئلے کے نئے پاور پلانٹ سے آلودگی پیدا نہیں ہوگی۔ اگر تھر کول کو پوری طرح فروغ دیا جائے تو اس سے پاکستان کا کثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت 67 ڈالر سے کم ہوکر 44 ڈالر پر آ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت نے توانائی کی ضروریات کی درآمد پر اب تک 24 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جب کہ تمام کوششوں کے باجود گیس درآمد نہیں کی جا سکی ہے جس کی وجہ سے آنے والی سردیوں میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کی صورت میں ملک کو توانائی کے سنگین بحران کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا تھر کول جیسے مفید منصوبوں سے نہ صرف پاکستان کے دیرینہ ترقی کے مسائل حل ہو سکیں گے بلکہ درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا خطیر زر مبادلہ بچا کر عوام کی فلاح و بہبود پربھی خر چ کیا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق تھر میں 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جن سے گیس اور بجلی بنائے جاسکتے ہیں۔ اگر حکومت قدرت کے اس انمول تحفے کو عوامی فلاح اور بہبود کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرے تو اس سے پاکستان کی توانائی کا مسئلہ باآسانی حل ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہمیں کوئلے کے ساتھ ساتھ توانائی کے قابل تجدید اور متبادل ذرائع بشمول سولر، ونڈ اور ہائڈرل کو بھی بروئے کار لا کر عوام کے لیے صاف اور سستی بجلی پیدا کرنے کے دیرپا منصوبوں پر کام کا آغا زکرنا ہوگا۔ ان منصوبوں سے عام آدمی کو جہاں توانائی کی سہولتیں میسر ہوں گی وہیں ملکی معیشت بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گی۔
تھر کول منصوبے کے حوالے سے ایک اور قابل ذکر بات اس منصوبے کا جدید ٹیکنالوجی سے مکمل ہونا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی جیسے تباہ کن مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایک وقت تھا جب تھر میں زندگی گزارنے کے آثار نہیں تھے اور یہ علاقہ لق ودق صحرائوں کے لیے مشہور تھا لیکن اب جب یہاں سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی ہے تو یہ بے آب وگیا علاقہ جنگل میں منگل کا سماں پیدا کررہا ہے۔ اس منصوبے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کوئلے کی ٹرانسپورٹ کے لیے یہاں ریلوے ٹریک بنایا جارہا ہے۔ صحرائے تھر تیزی سے ترقی کررہا ہے، آئندہ سال تک تھر کے کوئلے سے ملکی معیشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، کوئلے کی قیمت کم ہوگی تو اس سے بجلی کی قیمت بھی خود بخود کم ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب سے تھر کول کا منصوبہ شروع ہوا ہے اس سے یہاں کے عوام کو روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہوئے ہیں اور اگر اس منصوبے کی توسیع کا کام جاری رہا تو اس سے نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے مزید مواقعے پیدا ہوں گے بلکہ یہاں دیگر علاقوں سے آنے والوں کے لیے بھی روزگار کے نئے دروازے کھلیں گے۔
وطن عزیز کو پچھلی دو دہائیوں میں بجلی کے جس شدید ترین بحران اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا ہے اس کی بڑی وجہ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث ہائیڈل منصوبوں کا مطلوبہ پیداوار دینے میں ناکافی ہونا تھا۔ 2013 میں اس وقت کی حکومت کو برسراقتدار آتے ہی بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے تیل و گیس کی صورت میں انتہائی مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑے جس سے وہ حکومت عارضی طور پر تو اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی لیکن آج ڈالر کو پر لگ جانے سے حکومت کو پیداواری لاگت پوری کرنے میں جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر لوڈشیڈنگ کی پہلے جیسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ تونائی کے اس قومی بحران کے پیش نظر ہی سستی توانائی کے حوالے سے ارضیاتی ماہرین نے ایک بار پھر حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے، جن کی مالیت اندازاً 85 ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہے، توانائی کے سنگین بحران سے نمٹنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ان ماہرین کے مطابق ملکی معیشت پر درآمدی ایندھن کے اثرات محدود کرنے کے لیے تھر کے کوئلے کے ذخائر کو باآسانی کام میں لایا جاسکتا ہے جب کہ بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے پیدا ہونے والی کوئلے کی فاضل پیداوار کو برامد کرکے خاطر خواہ زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں صرف سیمنٹ اور شوگر کی صنعتوں میں متبادل ایندھن کے طور پر ان کے استعمال سے پاکستان کو اس مد میں بھی 66 ارب روپے تک کی بچت ہوسکتی ہے۔ تھرپارکر کے مقامی لوگوں کے مطابق اس صحرائی علاقے میں کوئلے کے ذخائر ان کے لیے امید کا واحد اور آخری ذریعہ ہیں جو ان کی ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ارضیاتی ماہرین تھر کے اس کوئلے کو ملک کی صدیوں تک ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ اگر حکومت نے اس عظیم منصوبے پر اسی رفتار سے کام جاری رکھا تو اس سے نہ صرف انتہائی سستی بجلی حاصل ہوگی بلکہ اس سے ملک کی صنعتی شعبے کی دیگر ضروریات بھی پوری کرنے میں مدد لی جاسکے گی۔