خیبر پختون خوا پولیس کی قربانیاں

520

صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں خیبر پختون خوا پولیس پر فرض کی بجا آوری اور صوبے میں قیام امن کے حوالے سے ایک بارپھر دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے علاوہ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، صوابی، چارسدہ، پشاور اور سوات میں پولیس گاڑیوں اور چوکیوں کو قانون شکن عناصر کی جانب سے جس تیزی اور بے دردی سے نشانہ بنایا جارہا ہے متعلقہ حلقوں کو نہ صرف اس کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے بلکہ اس سے پہلے کہ پانی ایک بار پھر سر سے گزر جائے اس حوالے سے کوئی مضبوط بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ خیبر پختون خوا پولیس نے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران فرض کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے 1850 سے زائد اہلکاروں کی قربانی دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کے جان ومال اور خاص کر ان کے اہل وعیال کے تحفظ کے لیے کوئی لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جائے گا یا پھر ان کی ان بے تحاشا قربانیوں کی واہ واہ پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا پولیس کا شمار دنیا کی ان چند بہادر پولیس فورسز میں ہوتا جو عالمی سطح پر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا چکی ہیں۔ ہماری جوان مرد پولیس نے پچھلی ایک دہائی کے دوران دہشت گردوں کا جس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اس پر نہ صرف کے پی پولیس بجا طور پر فخر کرسکتی ہے بلکہ ا س جرأت اور بہادری پرصوبے کے عوام کوبھی ناز ہے۔ ٹیکنالوجی، اعلیٰ ٹرینڈ افرادی قوت، گولہ بارود، ہائی ٹیک گاڑیوں اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کی کمی کے باوجود ہماری پولیس نے امن کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے کر جو قابل تحسین کارنامے انجام دیے ہیں وہ ہماری اس بہادر فورس کا ہی نشان ِ افتخار ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختون خوا پولیس کی ان بے پناہ قربانیوں کے باعث اب نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملک بھر میں بھی ہر سال 4 اگست کو پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اس کی قربانیوںکو خراج تحسین پیش کرنے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز قرآن خوانی اور شہداء کی روح کے ایصال ثواب کے ساتھ ساتھ ملک و دنیا میں امن کے لیے فاتحہ خوانی سے کیا جاتا ہے۔ اس دن ان تمام افسروں اور جوانوں کی قبروں پر سلامی پیش کی جاتی ہے جو دوران ِڈیوٹی شہید ہوئے تھے۔اس دن کے سلسلے میں تمام اضلاع میں بلڈ ڈونیشن کیمپس اور سیمینارز ومذاکروں کے انعقاد کے علاوہ واک اور ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کی ایک اہم بات پشاور اور دیگر کئی اضلاع میںشہید پولیس اہلکاروں کے بچوں کے لیے متعدد سرگرمیوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ان مواقع پر شہید اہلکاروں کے بچوں کومختلف تحائف پیش کرناہے۔ جب کہ اس روز شہید اہلکاروںکو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صوبے کے مختلف حصوں بالخصوص تھانوں اور پولیس لائنز میں ان شہدا کی قد آدم تصویر بھی آویزاں کیجاتی ہیں۔
اگرچہ 1970 سے اب تک مختلف قسم کے حملوں اور مقابلوں میں مجموعی طور پر 1,849 پولیس اہلکار شہید ہوئے، ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سے گزشتہ 15 سالوں میں مارے گئے۔ 1970 سے 2006 تک 389 پولیس اہلکار شہید ہوئے لیکن 2007 سے لے کر جولائی 2022 کے وسط تک کے پی میں 1480 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان میں پچھلے 15 سالوں میں 1072 کانسٹیبل تھے۔پچھلے 15 سالوں کے دوران خیبرپختونخوا پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز میں کچھ اعلیٰ افسران جیسے ایڈیشنل انسپکٹر جنرلز صفوت غیور اور اشرف نور، ڈی آئی جی ملک سعداور عابد علی، چھ ایس ایس پیز/ایس پیز اور 15 ڈی ایس پیز/قائم مقام ایس پیز شامل ہیں۔ 2007 سے اب تک 32 انسپکٹرز، 109 سب انسپکٹرز، 88 اے ایس آئیز، 155 ہیڈ کانسٹیبلز اور 1072 کانسٹیبلوں نے مختلف حملوں میں ملک اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی قیمتی جانیں نچھاورکیں۔کے پی پولیس ریکارڈ کے مطابق 2007 میں 107 پولیس اہلکار، 2008 میں 172، 2009 میں 209، 2010 میں 107 اور 2011 میں 154، 2012 میں 106، 2013 میں 134،2014میں 1142،2015 میں 61 پولیس اہلکار، 2016 میں 74، 2017 میں 36، 2018 میں 30، 2019 میں 38، 2020 میں 28 اور 2021 میں 59 پولیس اہلکار مختلف حملوں کا شکار ہوئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق 2021 کے آخر میں حملوں میں اضافہ شروع ہوا۔ رواں سال کے دوران پولیس پر حملوں میں اب تک 63 اہلکار جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پولیس کی ان لازوال قربانیوں کے بیچوں بیچ جب کبھی کبھار ہمیں ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً جن میں کہاجاتاہے کہ پشاور میں اشتہاری اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مبینہ روابط کے الزامات یاکرپشن کے مختلف کیسز میںکئی پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میںبعض مzید افسران واہلکاروں کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تو اس سے اگر ایک طرف پولیس کے فرض شناس اور ایماندار اہلکاروں کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں تو دوسری جانب ان خبروں اور اطلاعات پر ان پولیس اہلکاروں کی روحیں بھی تڑپتی ہوں گی جو فرض کی پکار پرلبیک کہتے ہوئے اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کرچکے ہیں۔ لہٰذا توقع ہے کہ پولیس کے اندر جزا اور سزا کے عمل کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ایسی کالی بھیڑوں سے جوپولیس کے دامن پرکلنک کا ٹیکہ ہیں اس قابل فخر فورس کو نجات دلائی جائے گی جس کا طرہ امتیاز بھادری اور فرض شناسی ہے۔