نئی سرد جنگ کے خدشات؟

511

بھارت اور امریکا کی جانب سے مبینہ جاسوسی کی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات کے باوجود ایک چینی بحری جہاز کا گزشتہ دنوں سری لنکا کی چین کے زیر انتظام بندرگاہ ہمبنٹوٹا پر لنگر انداز ہونے کے خلاف جہاں بھارت اور امریکا کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے وہاں بین الاقوامی سطح پر اس تنقید کو امریکا اور چین کے درمیان حالیہ دنوں میں تائیوان کے ایشو پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یوآن وانگ 5 نامی چینی بحری جہازکو سری لنکا کے پانیوں میں داخل ہونے کی اجازت اس شرط پر دی گئی کہ وہ یہاں کسی قسم کی جنگی یا تحقیقی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
اس جہاز کو یہاں گزشتہ ہفتے پہنچنا تھا لیکن کولمبو نے بیجنگ سے کہا تھا کہ وہ بھارت کے اعتراضات کے بعد یہ دورہ ملتوی کرے جس سے خطے میں چینی سرگرمیوں کے بارے میں مغربی خدشات کو تقویت ملتی ہے لیکن بعدازاں گفت و شنید کے بعد سری لنکا نے اس چینی بحری جہاز کو اپنی جنوبی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے اور ایندھن بھرنے اور دیگر سامان لے جانے کی اجازت دے دی تھی جس پر نہ صرف نئی دہلی نے کولمبو کے پاس باقاعدہ شکایت درج کرائی بلکہ واشنگٹن نے اس پر سیکورٹی خدشات کا اظہار بھی کیا۔ دریں اثناء سری لنکا کے حکومتی ترجمان بندولا گناوردانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم چینی جہاز کو وہی سہولتیں دے رہے ہیں جو ہم دوسرے تمام ممالک کو بھی دیتے ہیں اور یہ تمام ممالک ہمارے لیے اہم ہیں جب کہ سری لنکا میں چین کے سفیر کیو ژین ہونگ نے کہا ہے کہ یوآن وانگ 5 کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تبادلوں کا حصہ ہے، چین اور سری لنکا کے درمیان شاندار دوستی ہے اور اس دوستی پر کسی دوسرے ملک کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ 2017 سے چین کے زیر انتظام ہے جسے چین نے 1.12 بلین ڈالر کے عوض 99 سالہ لیز پر حاصل کررکھا ہے۔ دوسری جانب یہ بات اہم ہے کہ شپنگ اینالیٹکس نامی ویب سائٹ نے یوآن وانگ 5 کو تحقیق اور سروے کرنے والا جہاز قرار دیا ہے لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق یہ دوہری استعمال کرنے والا جاسوس جہاز ہے حالانکہ روایات کے برعکس اس جہاز کے استقبال کے لیے کوئی روایتی فوجی بینڈ نہیں تھا البتہ روایتی رقاصوں اور ڈرمروں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے سرخ قالین پر پرفارم کرکے اس کا استقبال کیا۔ اسی طرح گودی کے کنارے کئی قانون ساز بھی موجود تھے لیکن وہاں کوئی سینئر سیاستدان یا دیگر معززین موجود نہیں تھے۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ نئی دہلی کو بحر ہند میں بیجنگ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سری لنکا میں اثر رسوخ پر نہ صرف اعتراض ہے بلکہ وہ اس میں روڑے اٹکانے سے بھی دریغ نہیں کرتا، دراصل یہ دونوں پڑوسی مگر حریف ممالک بحر ہند کو اپنے دائرۂ اثر میں رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چین نے بھارت کی جانب سے سری لنکا پر دباؤ ڈالنے کے اقدام اور اس حوالے سے سیکورٹی خدشات کے اظہار کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قراردیا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب سری لنکا غیر معمولی اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاز کی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون اور طرز عمل کے مطابق تھیں اور یہ کسی بھی ملک کی سلامتی یا اقتصادی مفادات کو متاثر نہیں کرتی ہیں لہٰذا اس پر کسی تیسرے فریق کواعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
بحر ہند میں چین کے ایک جدید تحقیقاتی بحری جہاز کے سری لنکا کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کے معاملے پر چین اور امریکا کے درمیان تند وتیز جملوں کا تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک جانب روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی شدت میں کمی یا اس جنگ کے خاتمے کے آثار نمایاں ہونے کے بجائے صورتحال روز بروز مزید گمبھیر اور پیچیدہ ہوتی جارہی ہے جب کہ دوسری جانب بحر الکاہل کے خطے میں پچھلے کچھ عرصے سے امریکا جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کو ساتھ ملا کر جس طرح چین کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے اس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں امریکا کی جانب پہلے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے غیر اعلانیہ اور اچانک دورے کے بعد امریکا کے پانچ رکنی کانگریسی وفد کا یہاں پہنچ کر چین کو اشتعال دلانے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے جس پر چین نے بھی حسب توقع اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جہاں امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فراہمی اور تائیوان میں امریکی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا وہاں چین نے اس موقع پر آبنائے تائیوان میں ایک بڑی جنگی مشق کے اعلان اور اس خطے میں میزائل تجربات کے ذریعے بھی امریکا اور مغربی دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ تائیوان میں امریکی مداخلت چین کی ریڈ لائین ہے اور وہ اس ضمن میں مزید کسی صبرو تحمل سے کام نہیں لے گا اور اگر ضرورت پڑی تو چین اس حوالے سے طاقت کے براہ راست استعمال سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ لہٰذا اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری مہذب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ درحقیقت اس وقت جب ساری دنیا کو کوویڈ19 اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عوامل کی وجہ سے شدید ترین اقتصادی بحران کا سامنا ہے تو ایسے میں بڑی طاقتوں کونہ صرف کسی نئی محاذ آرائی سے گریز کی ضرورت ہے بلکہ انہیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ دنیا کے کسی نئی سرد جنگ کی طرف بڑھنے سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ ایسا کرنا پوری انسانیت کے لیے سراسر خسارے اور گھاٹے کا سودا ہوگا۔