دودھ کا دودھ پانی کا پانی

670

مندرجہ بالا مشہور کہاوت پر جو کہانی بنائی گئی ہے وہ یقینا بیش تر قارئین کو ازبر ہوگی پھر بھی اسے نشرِ مکرر کے طور پر ضبطِ تحریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ کسی گاؤں کا ایک دودھ والا تھا جو گاؤں کے ایک قریبی شہر میں دودھ فروخت کرنے جایا کرتا تھا۔ وہ پیسوں کا اتنا حریص تھا کہ دودھ میں دودھ کی مقدار کے مطابق ہی پانی ملا دیا کرتا تھا۔ گاؤں اور اُس چھوٹے سے شہر کے درمیان، جہاں وہ دودھ بیچنے جاتا، ایک بڑی نہر پڑتی تھی۔ نہر کے دونوں جانب گھنے سایہ دار درخت بھی تھے۔ اس کا معمول یہ تھا کہ وہ پیسوں کی لین دین مہینہ پورا ہونے پر ہی کیا کرتا تھا۔ مہینہ پورا ہونے پر وہ اشرفیوں کی تھیلی اٹھائے اپنے گاؤں واپس آرہا تھا۔ اُس دن کچھ دھوپ میں حدت کافی تھی چنانچہ پل سے گزرنے سے قبل اس نے نہر میں نہانے کا فیصلہ کر لیا۔ اشرفیوں کی تھیلی اس نے ایک گھنے درخت کے سائے میں رکھی، کپڑے اُتار کر تھیلی پر رکھ دیے اور خود لنگوٹ کس کر نہر میں کود پڑا۔ نہر کا پانی فرحت بخش اور ٹھنڈا تھا جس سے نہ صرف اس کی تھکن دور ہو گئی بلکہ گرمی کی شدت کا احساس بھی کافی کم ہو گیا۔ نہر سے باہر آکر اس نے اپنے کپڑے دوبارہ زیب ِ تن کیے لیکن پہننے کے لیے جب قمیص اٹھائی تو دل پکڑ کر بیٹھ گیا کیونکہ کپڑوں کے نیچے مہینے بھر کی کمائی جو اشرفیوں کی صورت میں رکھی ہوئی تھی، موجود نہ تھی۔ جیسے تیسے کرکے اس نے قمیص پہنی اور حیران و پریشان ہو کر دیوانہ وار اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ آخر اس کی اشرفیوں کی تھیلی کون لے اُڑا۔ نہانے کے دوران اس کی نگراں آنکھیں اپنے کپڑوں اور پیسوں کی جانب لگی رہی تھیں اور وہ یہ بات یقین سے کہہ سکتا تھا کہ اِس دوران اس نے کسی بھی انسان کو اِس جانب آتے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک اس کی نظر درخت کی جانب اٹھی تو اس نے دیکھا کہ درخت کی ایک اونچی سی شاخ پر موٹا تازہ بندر بیٹھا ہے اور اُس کے ہاتھ میں اُسی کی اشرفیوں کی تھیلی ہے۔ تھیلی کے مل جانے پر اسے اطمینان تو ہوا لیکن اب اس تھیلی کی واپسی کا مسئلہ سامنے آ گیا۔ پہلے تو وہ ہزار طریقے آزماتا رہا کہ بندر تھیلی پھینک دے۔ جب بات نہ بنی تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر بندر کی جانب اُچھالا جو اُسے تو نہ لگ سکا البتہ وہ نہر میں جا پڑا۔ ایک اور پتھر اٹھا کر مارا تو وہ زمین پر آن گرا۔ ردِ عمل کے طور پر بندر نے بھی تھیلی سے ایک اشرفی نکال کر نہر میں پھینک دی اور دوسری زمین پر یہاں تک کہ اس نے ساری اشرفیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا اس طرح آدھی اشرفیاں پانی کی نذر ہو گئیں اور آدھی دودھ والے کے حصے میں آئیں گویا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔
پاکستان میں سیلابوں نے جو تباہی مچائی ہے وہ قہر خدا وندی سے کم نہیں۔ موجودہ سیلابی عذاب سے قبل بھی چھوٹے بڑے سیلاب آتے رہے ہیں۔ پاکستان اکثر اسی قسم کی تباہ کاریوں کا شکار ہوتا رہا ہے۔ شدید بارشوں کے زمانے میں بھی اکثر پانی کے بڑے بڑے ریلے آبادیوں پر اسی قسم کی آفتیں ڈھاتے رہے ہیں لیکن آج تک ان تباہ کاریوں سے کسی نے سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر غور کیا جائے تو موجودہ تباہی اکثر مقام پر اسی طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جیسا معاملہ کرتی رہی ہے۔ پاکستان میں حرص، لالچ اور جائز و نہ جائز طریقے سے دولت کمانے یا فوری اور سامنے کے مفادات حاصل کرنے کے لیے ہر شخص اندھا بنا ہوا نظر آتا ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ بار بار ایک ہی قسم کا نقصان اُٹھانے کے باوجود، ہر فرد اسی عمل کو اپنا تے رہنے کا عادی ہو چکا ہے۔
سیلاب کی تباہ کایوں کے سلسلے میں جن شمالی علاقوں کی ویڈیوز الیکٹرونک چینلوں پر نشر کی جا رہی ہیں وہ سب میں نے دیکھے ہوئے ہیں۔ ساری تباہ ہونے والی آبادیاں ہوں یا عالی شان ہوٹل، نناوے فی صد سے زیادہ وہ ہیں جو دریاؤں کے راستے مسدود کرکے تعمیر کیے گئے تھے۔ میدانی علاقوں میں بہہ جانے والی آبادیاں بھی زیادہ تر وہ آبادیاں ہیں جو ہمیشہ سیلابی پانی کے زد میں آتی رہی ہیں لیکن ہر مرتبہ ہوتا یہ رہا ہے کہ جب بھی عذاب ٹل جاتا ہے، سارے کے سارے ٹھیک اُسی انداز میں بالکل اُسی طرح اور ان ہی مقامات پر آباد ہوجاتے ہیں۔
کراچی جیسے شہر میں بھی پانی کی جتنی گزرگاہیں ہیں وہاں ناجائز قابضین کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جب آپ پانی کی گزرگاہوں کو مزید بڑا اور گہرا کرنے کے بجائے تنگ اور مسدود کرکے رکھ دیں گے تو پھر یہی کچھ ہونا ہے جو ماضی و حال کے سیلابوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ان سارے کاروباریوں اور ناجائز رہائشیوں نے جتنا سرمایا اور رہائشیوں نے مفت میں اپنی زندگی کے مزے لوٹے یہ ایسا ہی ہے جیسے جو دولت اور زندگی کے مزے انہوں نے لوٹے وہ ان کے ہوئے اور جو پانی کے تھے وہ پانی بہا کر لے گیا۔ ماضی کی تباہیوں سے لیکر موجودہ تباہی تک، رہی بات سبق حاصل کرنے کی تو میرے نزدیک یہ ایک فضول سی بات ہے اس لیے کہ آفت ٹل جانے کے پر سب کو اپنی اپنی تباہی و بربادی کے بعد ٹھیک اسی جگہ پر آباد ہوجانا ہے، راشی پھر رشوتیں لے کر ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیدیں گے اور بہہ جانے والی ساری آبادی ٹھیک اسی مقام پر دوبارہ آباد ہو جائی گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کروڑوں افراد اس تباہی میں معصوم اور بے قصور بھی ہیں لیکن یاد رہے کہ صالحؑ کی اونٹنی کو ہلاک کرنے والے چند ہی تھے لیکن عذاب کی زد میں پوری قوم آئی تھی۔