میرٹ مگر پورے پاکستان کے لیے کیوں نہیں؟

585

آج کل کافی جلدی جلدی آئی ایس پی آر کے بیانات آ رہے ہیں۔ کچھ دن قبل کی بات ہے کہ آئی اس پی آر کی جانب سے شہدا (افواج پاکستان)، کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ان کو کیوں سلام پیش نہ کریں یا ان کو دعاؤں میں کیوں یاد نہ کریں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر تا دمِ تحریر، جن جن جوانوں اور افسروں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے قربانیاں پیش کیں، مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم ان کو ہر ہر لمحے اپنی دعاؤں میں یاد رکھتی ہے۔
افواجِ پاکستان کے جوانوں کی قربانیاں یقینا اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان کے لیے ہر پاکستانی کو ہر ہر لمحے دعا گو رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سارے شہدا پر رحمتوں کی بارش کرے اور ان کے جتنے بھی لواحقین ہیں ان کو صبر کی توفیق عطا کرے۔
پاکستان بنانے کی جدو جہد کی تاریخ پر اگر روشنی ڈالی جائے تو وہ 1947 سے بھی 100 برس قبل کی ہے۔ اس سو برس کے دوران نجانے کتنے افراد تھے جنہوں نے جدو جہدِ آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا۔ 1940 سے 1947 کا عرصہ تو پاکستان کی جدو جہد میں شریک ہونے والوں کے لیے قیامت ِ صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ 14 اگست 1947 کے دن جب باقائدہ پاکستان بنائے جانے کا اعلان ہوا تو ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے نہلادی گئی اور ایک ڈیڑھ ہفتے کے اندر اندر کم و بیش 20 لاکھ افراد شہید کر دیے گئے۔ شہید کیے جانے والے افراد اپنی جگہ، لاکھوں خواتین کی عصمت دری، زیادتیوں کے بعد ان کا قتل اور ہزاروں خواتین کا اغوا اُس کے علاوہ ہے۔ اتنی قربانیوں اور اتنی شہادتوں کے بعد جس ملک کو آزادی نصیب ہوئی کیا کبھی ان شہدا کے لیے بھی کبھی کسی حکومت اور افواجِ پاکستان نے دعاؤں اور نیک تمناؤں کا دن منانے کا اعلان کیا؟۔
آئی ایس پی آر نے عمران خان اور ان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے فوج پر جو الزامات لگائے گئے، نہایت غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کا یہ اظہار اپنی جگہ لیکن کیا اب افوجِ پاکستان بھی عمران خان کی عوامی شہرت سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی طرح اتنی مصلحت پسند ہو چکی ہے کہ وہ اداروں اور حکومتِ پاکستان سے اپیل تک نہیں کر سکتی کہ وہ اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لیے قانون سازے کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو سیاستدانوں کی طرح اس قسم کے بیانات کو بھی صرف ’’بیان بازی‘‘ ہی سمجھا جائے گا۔
آج یومِ دفاع کے موقع پر کچھ اور سلائیڈز بھی آئی ایس پی آر کے حوالے سے چینلوں پر مسلسل چل رہی ہیں جس میں عمران خان کے بیانات کے حوالے سے افواجِ پاکستان کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مجھے تو یہ بات ہی بہت عجیب لگ رہی ہے کہ پاکستان کے مضبوط ترین ادارے کی جانب سے متعدد بار اسی قسم کے بیانات کو دہرائے جانے میں کیا حکمتِ عملی ہے۔ جس فوج کے پاس ’’کہنا‘‘ اور پھر فوراً اس پر ’’عمل‘‘ کرنا دیکھا گیا ہے وہ آخر صرف بیانات پر بیانات دینے پر ہی کیوں اکتفا کر رہی ہے۔ ان ہی سلائیڈوں میں ایک بات ایسی بھی ہے جو میرے لیے بہت ہی دل لگتی ہے اور وہ یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کی مضبوطی کا راز یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے نزدیک اگر کوئی بات اہمیت رکھتی ہے تو ’’میرٹ‘‘ ہے۔ وہاں ایک مزدور یا سپاہی کا بیٹا بھی ہو تو وہ بتدریج ترقی کرتے ہوئے آرمی چیف بن سکتا ہے۔ فوج کی نظر میں ایک جنرل کا بیٹا اور سپاہی کا بیٹا برابر ہیں۔ کسی
بھی ادارے کی مضبوطی کا راز میرٹ ہی میں پوشیدا ہوا کرتا ہے یہاں تک کہ تعمیرات میں بھی اگر تعمیر شدہ عمارت کسی نا اہل معمار کو دیدی جائے تو ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو حالیہ سیلابوں میں ٹوٹ جانے والے نئے تعمیر شدہ ڈیموں، شاہراہوں، عمارتوں اور پلوں کا ہوا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فوج سمیت کسی بھی ملک کے تمام اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا راز ’’اہلیت‘‘ ہی میں مضمر ہے تو ’’کوٹا سسٹم‘‘ اب تک آئینِ پاکستان کی کتاب میں کیوں موجود ہے جبکہ اس سسٹم کے بعد دو مضبوط فوجی حکومتیں پاکستان میں قائم ہو چکی ہیں۔ کیا اس سسٹم کی وجہ سے پاکستان کے سارے نجی اور حکومتی اداروں میں جو تباہی آئی ہے وہ افواج پاکستان کی نظروں میں نہیں۔ جب پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ اپنی مضبوطی کا سبب میرٹ کو ہی بتاتا ہے تو صرف اپنے اور اپنے ادارے سے منسلک اداروں کے لیے ہی میرٹ کو کیوں پسند کرتا ہے، پورے پاکستان کو مضبوط ہوتا کیوں نہیں دیکھنا چاہتا۔ بہتر ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کو مضبوط بنایا جائے اور نجی اور سرکاری، ہر قسم کے چھوٹے بڑے اداروں اور محکموں سے ہر قیمت پر نااہل افراد کو نکال باہر کیا جائے بصورت دیگر جب پاکستان ہی مضبوط و مستحکم نہیں ہوگا تو کیا ادارہ اور کیا ادارے کی مضبوطی، سب ریت دیوار ثابت ہوگی۔