ہم سب عینی شاہد ہیں

652

صرف اسکرین کے ناظر کی حیثیت سے نہیں بلکہ چلتے، پھرتے دھکے کھاتے، تڑپتے، بلبلاتے، بچتے بچاتے حاضر عینی شاہد بن کے الامان و الحفیظ کرتے ہوئے اس شہر نا پرساں کی شکستہ حالی کے گواہ، اسے جلا جلا کر راکھ ہوتے حادثات وواقعات کے بھی گواہ، پھر بھی چپ سادھ لیتے ہیں کہ اللہ کچھ کردے گا! مسئلہ تو لاینحل ہے مگر ہم اور کہاں جائیں فرزند زمین جو ٹھیرے۔ عروس البلاد کو اندھیر نگری بننے میں نسلیں کھپ گئیں مقبوضہ علاقے کی بات نہیں آزاد وطن کے ماں جیسے شہر کی بدحالی کا نوحہ ہے یہ، تو آئیں چند مناظر دیکھتے ہیں مگر سرسری نہیں غور سے کہ اس حقیقت کا سامنا ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
شدید گرمی اور حبس میں لوڈشیڈنگ منٹوں کی نہیں سہی جاتی یہاں گھنٹوں کی مار پڑتی ہے لوگ دہائی دے رہے ہیں کوئی گالیاں، کوئی بددعائیں مگر سلطانی ٔ جمہور سے جمہور ڈرے رہے کا منظر چیختا ہے چنگھاڑتا ہے اوپر سے کار سے کوئی تماشائی اُترتا ہے بابا صبر کرو اللہ اجر دے گا گویا جلتی پہ تیل کا کام ہوگیا ’’ارے اللہ صبر اجر سب کا مذاق بناتے ہو بے غیرتو‘‘ متاثرین پہلے ہی خار کھائے ہوئے تھے اب جبر کی تلقین صبر کے نام پہ ہوئی تو بے بھاؤ کی سنانے لگے مگر سننے والے کون جب شنوائی ہی نہیں۔ ٹوٹی سڑکوں اور سیوریج کے مسائل نے ذرا سے سفر کو الگ عذاب بنادیا ہے، ٹریفک کا بدترین نظام دکھوں کی الگ داستان ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
بہرحال شہر نگاراں کی تاریخ بزرگوں سے بھی سنی خود بھی گزرے۔ دعوے دار آئے اپنا بن کر مگر نیا شکاری پرانے جال لایا لوگ پھنستے گئے، دھنستے گئے۔ کٹتے، مرتے جلتے شہر کو اندھیروں میں ڈبو دیا۔ دعویٰ تھا کہ شہر کو پیرس بنائیں گے نہیں لندن بنائیں گے مگر بے حسی، سفاکی، دہشت گردی نے شہر کو مریخ بنادیا۔ ذہن کہتا ہے کہ مریخ جانے کی سرتوڑ کوششیں کرنے والوں کو زمین پہ موجود اس مریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیے خواہ مخواہ اتنا لمبا سفر اور اس کے انتظام وہ بھی بنجر سفر پہ جانے کے لیے قریب ہی تو ہے مریخ، بہرحال کوئی اپنا نہیں کی حقیقت کھلی اور بار بار کھلی، دھوکا ایک بار کھائیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں مگر کیا مزیدار دھوکا تھا کہ بار بار کھاتے رہے مگر مزہ بڑھتا گیا خود فریبی کا جال تھا یہ مزہ بھی اور اب شہر کی اُجڑی مانگ کا منظر سامنے ہے۔
اور ایک منظر قلابازیوں کی مفاہمت کا بھی ہے جو گرگٹ کے بدلتے رنگ کو بھی شرماتا ہے بارود کی بو پھیلتی گئی ہڑتالوں کی ریکارڈ کامیابی کے فخر الگ پھر بارشوں کی شدت نے کچھ اور کچھ نکاسی ٔ آب کے مسائل نے شہر کو ڈبو دیا کشتیاں چلنے لگیں اس سیلابی صورتحال میں جمہوریت کے شاہی سوداگر ٹویٹ کے ذریعے بیان داغتے رہے اور کون تھے جو انسانوں کو جان جوکھم میں ڈال کر ڈوبنے سے بچاتے رہے، راستے بناتے رہے یہ کام تو حکومتوں کا ہوتا ہے مگر انہوں نے کیا جن کو ووٹ نہیں ملتے ان کے کارکن رضاکارانہ کیا کرتے رہے آنکھیں، راستے، اسکرین سب گواہ ہیں اس طرف شہر، ادھر ڈوب رہا تھا سورج۔ کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا؟ مگر کون تھا رونے والوں کے آنسو پونچھنے والا!، منظر پوچھتے ہیں اور یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں جب کورونا کا عفریت، دنیا بھر میں سانسوں سے آسوں تک سب کھا رہا تھا موت اور بھوک کا وحشیانہ رقص جاری تھا تب کون کھڑا تھا بولو لاک ڈاؤن کے سناٹے، کسمپرسی کی اموات، سماجی دوری کی تنہائیاں، اور بیروزگاری پھر اس کے نتیجے میں بھوک مستحکم لوگ بھی اس کی زد میں آگئے تب کون کھڑا تھا کون بڑھ کر گھر گھر راشن پہنچاتا رہا وہ بھی خامشی سے، پکے ہوئے کھانوں کے پیکٹ، عید گفٹس، افطاری بکس کی تقسیم کون کررہا تھا؟ پھر حکومت سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس قدر تعاون کہ بس انسان بچ جائے اپنے اسپتال حکومت کے حوالے، عملے کے لیے ایمرجنسی لگادی قربان ہوکر انسان بچالو، وہ ہے تو سب ہے۔
ہاں یہ اورنگی ٹاؤن کا عباس نقوی ہے اس کی بیوی کا آپریشن بڑا رسکی تھا اس کے بچوں کی ماں کی جان خطرے میں تھی ان کے اسپتال میں ماہر خاتون سرجن نے یہ کیس سنبھال لیا زندگی لوٹ آئی بچے کی بھی اس کی ماں کی بھی وہ کہہ رہا تھا یہ کون لوگ ہیں؟ صفائی کی صورتحال آغاخان جیسی، یہ چھوٹے سے اسپتال میں کون بڑے لوگ ہیں؟ جن کو لوگ ووٹ نہیں دیتے مگر کیوں؟ بے غرض دکھ بانٹنے والوں کی اتنی ناقدری یہ منظر سچ کے ساتھ گواہ ہے لالہ وکرم گھر واپسی پہ بارش میں ڈوب رہا تھا وہ فوجی بھی نہیں تھے، مگر بڑے فرض شناس لوگ تھے ان کو نکال کر محفوظ مقام تک پہنچایا بعد میں اسے پتا چلا کہ تھر میں جن بابا جی نے اس کے رشتہ داروں کے پیاسے علاقے میں کنویں کھدوائے ہیں جن کے لیے مندروں میں دعا کرائی جاتی ہے یہ وہی ہیں بلا تفریق رنگ نسل اور مذہب خدمت ہی خدمت الخدمت۔ برکت مسیح اٹھا اور صلیب بناتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا کوئی اب بھی نہ دے ووٹ! مگر میں خدا کو ڈھونڈتے ہوئے پا گیا ہوں اس کو پانے والے وہی ہیں جو بغیر کسی لالچ یا صلے کہ اس کے دکھی بندوں کا غم بانٹتے ہیں خدا ان کو چن چکا ہے نادان لوگ نہیں چنتے تو نقصان اٹھا رہے ہیں۔
آنکھیں کھولو نادانو! یہ وہی ہیں جو خطرناک برفانی طوفان میں اپنی جان کی پروا نہ کرکے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکاتے ہیں حالانکہ یہ کام حکومت کا ہے۔ مگر شاہی لاعلمی کے کیا کہنے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کراچی سب کا ہے یہ دردمند بے غرض اور پاکیزہ لوگ ہیں مخلص اور قابل بھی، تم ان کو آزما کر تو دیکھو ورنہ پھر ایک لمبے عرصے کا پچھتاوا تمہارا مقدر رہے گا، نہیں اندھیرے۔ یہی تو ہیں بحرانوں سے لڑجانے والے، طوفانوں سے ٹکرانے والے، کرپشن کا کوئی دھبا کوئی داغ ان کے کسی کارکن تک کے دامن پہ ثابت نہیں ہوا، آئیے ان مناظر کو دیکھتے ہیں کہ اپنا کون ہے؟ انسان دوست کون؟ لوگو! پس منظر بھی تم نے یا تمہارے اسلاف نے دیکھا ہے بلکہ بھگتا ہے شہر کے سارے انسان کس کو پیارے ہیں کون ان کو مصیبت میں چھوڑجاتا ہے کون نکالنے کو بڑھتا ہے بس شہر کی اجڑی حالت کو سنوارنے کے لیے آنکھیں کھول کر منظروں کی گواہی دیکھ لو اب کس کا چناؤ باقی رہ گیا ہے، خدا مگر ان کو چن چکا ہے یہ اس کی نظرکرم کے سلسلے ہیں۔