وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

748

ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اس کی کابینہ کے ارکان کی تعداد عمران حکومت کی کابینہ کے ارکان سے بھی بڑھ گئی ہے۔ عمران خان نے کم و بیش ساڑھے تین سال حکومت کی، اس دوران وہ اپنے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد میں مسلسل اضافہ کرتے رہے جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم یہ تعداد 52 کے ہندسے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس میں وفاقی وزرا کی تعداد 25 تھی، جب کہ شہباز شریف کو ابھی حکومت میں آئے 3 ماہ بھی نہیں ہوئے کہ ان کی کابینہ کے ارکان کی تعداد 55 ہوگئی ہے۔ جس میں34 وفاقی وزرا شامل ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں تین نئے معاونین خصوصی بنائے ہیں جنہیں کوئی ذمے داری نہیں سونپی گئی۔ بس انہیں سرکاری منصب سے نوازنا اور پروٹوکول دینا مقصود تھا۔ اندازہ کیجیے یہ اس حکومت کا حال ہے جس نے آتے ہی شور مچادیا تھا کہ قومی خزانہ خالی ہے اور عمران خان ملک کو بدترین معاشی حالت میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیانیے میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار تھا۔ یہ خطرہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی دریا دلی کا مظاہرہ شروع کردیا۔ عمرے پر گئے تو پورا جہاز بھر کر لے گئے جس میں گھریلو ملازمین بھی شامل تھے۔ اس طرح یہ عمرہ مملکت پاکستان کو کروڑوں میں پڑا جب کہ وہ خود پیسے پیسے کی محتاج تھی۔ شہباز شریف نے وزیراعظم ہائوس کے علاوہ اپنے ذاتی گھروں کو کیمپ آفس قرار دیگر ان کی سیکورٹی کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال دیا۔ پھر وزیروں، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کی سرکاری مراعات اور شاہی پروٹوکول نے اس واویلے کی نفی کی کردی کہ اس ملک کا بال بال قرضے میں اُلجھا ہوا ہے۔ اور اسے حد سے زیادہ کفایت شعاری اور جُزرس کی ضرورت ہے، اندازہ کیجیے وزارت مذہبی امور کے دوسو ملازمین کو سرکاری خرچ پر حج پر بھیجا گیا ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو انفرادی استطاعت سے مشروط ہے اگر ایک فرد مالی استطاعت نہیں رکھتا تو حج اس پر فرض نہیں ہے۔ اور نہ ہی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو حج کرائے جو فریضہ حج ادا کرنے کے وسائل نہیں رکھتا۔ ہاں اگر حکومت اتنی مالدار ہے کہ اسے اپنا مالی خرچ کرنے کا بہانہ ملنا چاہیے تو پھر نادار سرکاری ملازمین کو حج کرانے میں کوئی حرج نہیں لیکن موجودہ صورت حال تو بالکل برعکس ہے پھر یہ اللے تللے کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمران ہوں یا سابق حکمران، کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو برباد کرنے میں کیا کردار ادا کررہے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ دو خاندانوں نے تو پاکستان کو سونے کی کان سمجھ لیا تھا۔ برسراقتدار آکر ان خاندانوں کی ساری تگ و دو اس بات کے لیے تھی کہ وہ اس کان سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ کتنا سونا نکال سکتے ہیں۔ ملک کھوکھلا ہوتا گیا اور وہ اپنے لیے سونے کے ڈھیر یعنی دولت اکٹھی کرنے لگے، ان کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا اور پاکستان دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا حالاں کہ قدرت نے اسے بے شمار وسائل اور ایک ایثار پیشہ قوم سے نوازا تھا۔ اس وقت معاشی بحران کا یہ عالم ہے کہ ملک کی بقا اور اس کی آزادی و خودمختاری سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے لیکن حکومتی ارکان، بیوروکریٹس، جرنیل، جج اور پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے معزز ارکان، کوئی بھی اپنی مراعات اور پروٹوکول سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان مراعات یافتہ طبقوں نے ملک کو فتح کررکھا ہے اور وہ ایک آزاد قوم پر نہیں بلکہ ایک محکوم و مفتوح قوم پر حکمرانی کررہے ہیں۔ انگریزوں نے جب ہندوستان کو فتح کیا تھا تو یہاں بسنے والی قوموں کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اس وقت پاکستانی حکمران اور بالادست طبقے کا ہے انگریز چلے گئے اور ہندوستان دو خودمختار ملکوں کی صورت میں آزاد ہوگیا لیکن انگریز ان دونوں ملکوں میں سے کم از کم ایک ملک میں اپنے جانشین چھوڑ گئے اور یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے جہاں حکمران طبقہ انگریزوں کی جانشینی کا پورا حق ادا کررہا ہے۔ قوم سسک رہی ہے، ملک جاں بہ لب ہے لیکن اس طبقے کے عیش و عشرت اور اس کی مراعات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آئی ایم ایف جو اس مفلوک الحال قوم کو کسی بھی قسم کی سبسڈی یا رعایت دینے کے خلاف ہے، حکمران طبقے کی مراعات پر کبھی نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتا۔ اسے معلوم ہے کہ اگر اس طبقے سے مراعات واپس لے لی گئیں یا اس نے رضا کارانہ طور پر مراعات واپس کردیں تو اس ملک میں اصلاح کا عمل شروع ہوجائے گا اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی عادت جڑ پکڑ لے گی۔ پھر اس ملک کو آئی ایم ایف یا کسی بھی ساہوکار سے قرض لینے کی حاجت نہیں رہے گی۔ چناں چہ
وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
بالادست اور حکمران طبقہ اسی بے ڈھنگی چال پر اصرار کررہا ہے جسے اس نے ابتدا ہی میں اپنالیا تھا اب اس چال کے نتیجے میں ملک کا جو بھی حشر ہو اسے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔