حکمران شاہ خرچ یا عوام ٹیکس چور؟؟

556

آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے ارکان اسمبلی، وزیر مشیر، سرکاری افسر، ججوں وغیرہ کو مفت پٹرول، بجلی، گیس، رہائش، سیکورٹی، فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے۔ وہ مختلف اقسام کی مراعات وسہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ جبکہ پچیس ہزار روپے کمانے والا ایک عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ سراسر بے انصافی ہے جو اس غیرمنصفانہ ٹیکس نظام کا ہی نتیجہ ہے۔ بیرون ممالک میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو بعض مراعات ملتی ہیں مگر وہاں کم آمدنی والے طبقے کو زیادہ حکومتی امداد دی جاتی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقہ بھی عوام کو مختلف اقسام کی مدد، المعروف بہ سبسڈی، دیتا ہے مگر صرف اس لیے کہ اپنی کرسی بچا سکے۔ عوام اس کے خلاف احتجاج نہ کریں۔ مثلاً پی ٹی آئی حکومت پونے چار سال تک ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتی رہی، نئے ٹیکس لگائے، ایندھن کی قیمت بڑھاتی رہی اور سبسڈیاں کم کر دیں۔ اس چلن نے مہنگائی بڑھا دی اور معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ مگر جب دیکھا کہ کرسی خطرے میں ہے تو پٹرول سستا کر دیا، گو حکومت پھر بھی نہ بچ سکی۔دلچسپ بات یہ کہ سبھی ترقی یافتہ مغربی ممالک خصوصاً اسکینڈے نیوین ملکوں میں بھی ٹیکسوں کی شرح کافی زیادہ ہے۔ مگر وہاں ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم کا استعمال پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں تو حکومتیں اپنی بقا اور حکمران طبقے کی مراعات وسہولتیں بحال رکھنے کے لیے ٹیکس لیتی ہیں۔ مغربی ممالک میں ٹیکسوں کی رقم عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جبکہ بجٹ کا کچھ حصہ حکومتی اُمور چلانے پر بھی صرف ہوتا ہے۔ یہ ہے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں اور ترقی یافتہ ملکوں کے ٹیکس نظام کا بنیادی فرق!
دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیلز ٹیکس کو چھوڑ کر بقیہ ٹیکس آمدن کے لحاظ سے لگتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو شہری جتنا زیادہ کمائے گا، وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے گا۔ چناں چہ اس طریقے سے بیش تر رقم امرا سے حاصل کی جاتی ہے اور کم آمدن والوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ حکومتیں پھر اس رقم کے ذریعے عوام کو مفت تعلیم، مفت علاج اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً بیروزگاروں کو ماہانہ گزارا الاؤنس ملتا ہے، بے گھر افراد کو مفت رہائش دی جاتی ہے۔
غرض ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی شہری کسی بھی مسئلے میںگرفتار ہو جائے تو حکومت اس کی بھرپور مدد کرتی ہے، پاکستانی حکومت کی طرح اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی۔ اسی لیے مغربی ممالک میں شہری ہنسی خوشی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان کی دی گئی رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو گی۔
تقریباً سبھی مغربی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے، چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا نہیں۔ طریق کار یہ ہے کہ ہر شہری دوران ملازمت اپنی تنخواہ کا مخصوص حصہ سرکاری پنشن اسکیم میں جمع کراتا ہے۔ پنشن کم یا زیادہ ہونے کا دارومدار قدرتاً اس کی تنخواہ پر ہے۔ تنخواہ زیادہ ہو تو پنشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم کم از کم پنشن بھی اتنی ضرور ملتی ہے کہ ایک جوڑا اپنی باقی ماندہ زندگی آرام وسکون سے گزار سکے۔ اسے ضروریات زندگی حاصل کرتے ہوئے مالی مسائل درپیش نہیں ہوتے۔ ٹیکس کا منصفانہ اسلامی نظام: وطنِ عزیز پاکستان کی قرضوں اور سود میں دبی معیشت کو مستقل اور پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنے کا واحد راستہ منصفانہ اصولوں پر مبنی ٹیکسیشن کا اسلامی نظام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام ڈائریکٹ ٹیکسوں پر استوار کیا جائے تاکہ ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے۔ سرمایہ دارانہ اصولوں پر مبنی موجودہ عوام دشمن نظام نے نہ صرف مہنگائی کے جابر چکر کو جنم دیا ہے بلکہ ملک وقوم پر بھاری بھرکم قرضوں کا وہ بوجھ چڑھا دیا ہے جسے ختم کرنے کی سبیل ماسوائے سود سے پاک اسلامی معاشی نظام کے کوئی اور نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہونے کے باوجود سراسر غیراسلامی ٹیکسیشن نظام کے تحت چلایا جارہا ہے۔
خاتم الانبیا سیدنا محمد مصطفیؐ کی حیات ِ مبارکہ کے دوران ریاست کی طرف سے عوام پر صرف ایک ٹیکس یعنی زکواۃ لاگو تھا، جو اُمرا سے لیا جاتا اور غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت لاگو کم و بیش 40 ٹیکسوں اور اس کے ناقابل برداشت شرح کے مقابلے میں زکوٰۃ کی شرح بہت کم یعنی محض اڑھائی فی صد ہے، اور یہ بھی سال کی کل آمدن پر صرف ایک دفعہ لاگو ہوتا ہے۔ نبی کریم خاتم النبیینؐ کے اِس دارِ فانی سے رحلت فرمانے کے بعد خلفائے راشدین کے تاریخی اور یادگار ادوار میں اسلامی مملکت کی سرحدیں روم و فارس کے قیصر و کسریٰ کی سلطنوں کو پاش پاش کرتے ہوئے آدھی دنیا تک پھیل گئیں تو اتنی بڑی سلطنت کے اُمور کو چلانے اور سنبھالنے کے لیے حکومتی اخراجات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاگیا۔ لہٰذا اْس دور کے فقہا نے فتویٰ دیاکہ اسلامی حکومت دفاع، عوام کی فلاح بہبود، عوامی ترقیاتی منصوبوں اور قومی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے نئے ٹیکس لگا سکتی ہے۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں ’’عشر‘‘ اور ’’خراج‘‘ کے نئے ٹیکس متعارف ہوئے۔ عشر کی دو اقسام ہیں: زرعی ٹیکس جو بارانی زمین پر 10 فی صد اور غیر بارانی زمین پر 5 فی صد ہے۔ دوسرا ’’کسٹم ڈیوٹی‘‘ جس کی شرح 10 فی صد تھی۔ ’’خراج‘‘ ٹیکس غیر مسلم ماتحت علاقوں سے لیا جاتا۔ ’’جزیہ‘‘ ٹیکس بھی غیر مسلم امرا سے لیا جاتا۔ گویا اسلامی حکومت میں سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹیاں، ودہولڈنگ ٹیکس حتی کہ انکم ٹیکس کا وجود تک نہ تھا۔ لیکن دور جدید کی اسلامی حکومتوں نے مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی اپنے ہاں بھی مختلف ٹیکسز عوام پر ٹھونس دیے ہیں۔
تاریخی حقائق و تجربات پر مبنی مذکورہ بالا تجزیے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ حکمران طبقے کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام پاکستانی کھانا کھاتے، کپڑے پہنتے، سفر کرتے اور دن بھر معمول کی تقریباً سبھی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہوئے کوئی نہ کوئی ٹیکس حکومت کو ادا کرتا ہے۔حقیقتاً پاکستانی عوام کے ٹیکس دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت اپنے کام کر پاتی ہے۔ اگر عام پاکستانی ٹیکس چور ہوتا تو حکومت کے لیے چلنا مشکل ہو جاتا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مدد اور اعانت پر غیر متزلزل ایمان و ایقان اور نبی کریم خاتم النبیینؐ کے ساتھ والہانہ محبت اور عشق رکھنے والی پاکستانی عوام کی وجہ سے ہی ریاست ِ پاکستان کا نظام قائم ودائم ہے۔