بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار

339

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کی بزعمِ خود سب سے بڑی نام نہاد جمہوریہ میں حالت یہ ہے کہ وہاں ہندئووں کے بعد سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن ان کو جینے کا حق نہیں دیا جارہا۔ بھارت کے اندر مسلمانوں کی تقریباً وہی حالت ہے جو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی ہے۔ حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں ہندئووں کے مقابلے میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ لیکن بھارت نے وہاں بھی مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ نام نہاد اقوامِ متحدہ بھارتی ظلم پر خاموش ہے۔ ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کا مقصد کیا ہے؟ اس ادارے نے اپنے قیام سے اب تک کہیں بھی مسلمانوں کے خلاف اقدامات اور ظلم وستم کی روک تھام کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے ہیں؟ برما ہو، فلسطین یا دیگر بعض ممالک میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایک طویل عرصہ سے اقوام متحدہ کی توجہ کا طالب ہے اور اس بارے میں موجود قراردادوں کی فائلیں اقوام متحدہ کا منہ چڑا رہی ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی آنکھیں کھولنے اور اسے جگانے کے لیے ڈوزئیر بھی پیش کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ سوئے ہوئے کو تو جگایا جاسکتا ہے لیکن جاگتے ہوئے کو کون جگائے۔ یہی حال عالمی طاقتوں کا بھی ہے۔
حال ہی میں بھارتی ریاست کرناٹک میں تو ہندئووں نے بے حسی کی انتہا کردی۔ کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلمان خواتین کے حجاب اور پردہ کرنے کے خلاف نفرت وشرانگیز مہم جاری ہے۔ بی جے پی سرکار کی زیر سرپرستی ہندو غنڈوں نے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم باپردہ مسلم طالبات کی زندگی اجیرن کررکھی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر بھی ہندو غنڈوں نے بے غیرتی کی تمام حدیں پار کرلیں۔ آر ایس ایس کے یہ بے شرم اور بے حس غنڈے یہ سب کچھ مودی سرکار کی آشیر باد سے کررہے ہیں، انہوں نے مسلم خواتین وطالبات کا گھروں سے نکلنا محال کردیا ہے۔ اس سلسلے کا ایک تازہ واقعہ کرناٹک ہی کے ایک شہر میں ایک مسلم طالبہ مسکان خان کے ساتھ اسی ہفتے پیش آیا کہ جب وہ اپنے کالج پہنچی تو پی ای ایس کالج کے غنڈوںنے اس کو گھیر لیا۔ مسکان خان نے بتایا کہ وہ اپنی اسائنمنٹ جمع کروانے کالج گئی، تو اس کو برقع پہننے کی وجہ سے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ بھگوا شرپسند ہندو طلبہ اس کی طرف دوڑ پڑے جو جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسکان پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے ان نعروں کے جواب میں مسکان خان نے نہایت دلیری اور بہادری کی مثال قائم کی اور اس نہتی باپردہ مسلم لڑکی نے اللہ اکبر کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں بی جے پی سرکار نے پوری ریاست میں حجاب پر پابندی لگا رکھی ہے۔ واضح رہے کہ تنہا مسلم باپردہ لڑکی پر جن بے غیرت وبے شرم ہندو غنڈوں نے حملہ کیا وہ ہندوتوا کے مذہبی رنگ کے زعفرانی مفلر بھی گلے میں ڈالے ہوئے تھے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا جو مسلم باپردہ طالبات کے خلاف بنایا گیا تھا۔ حکومتی آشیرباد اور سرپرستی میں مسلم خواتین کیخلاف یہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔
بھارتی ریاست کرناٹک کے اس تازہ واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیاکہ ’’سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک‘‘ میں تو جمہوریت کا نام ونشان بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہاں ہندو توا غنڈہ راج ہے جو دنیا کے سب سے بڑے مذہب اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کے بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ کہاں ہے اقوام متحدہ؟ کہاں ہے دنیا میں جمہوریت اور مذہبی آزادی کے نام نہاد علمبردار؟ جب بھارت میں دوسری بڑی آبادی کا یہ حال ہے تو سکھ اور مسیحی اقلیتوں کا کیا حال ہوگا؟ یہ خصوصاً سکھوں کوسوچنا چاہیے اور اپنی حالت ِ زار کو بھی مد نظر رکھناچاہیے۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر سکھوں کو بھی مسلمانوں کاساتھ دینا چاہیے اور اپنے حقوق کے لیے میدان میں آنا چاہیے۔ مسلمان ممالک کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ کاروبار پر مذہب کو قوقیت دیں اور کشمیری وبھارتی مسلمانوں پر بھارتی ظلم و درندگی کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھائیں۔ احادیث ِ مقدسہ کی روشنی میں اب وقت بہت قریب ہے۔ بہت ساری نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں اور مزید ظاہر ہورہی ہیں۔ موجودہ سال ویسے بھی کچھ بہتر حالات کی نشاندہی نہیں کررہا۔ پوری دنیا میں بے چینی اور اہم تبدیلیوں کے اشارے نظر آرہے ہے۔ رواں سال دنیا بھر کے لیے مشکلات میں اضافے کا سال لگ رہا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے رجوع اور اسی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں پر اپنا رحم وکرم فرمائے اور ہماری مدد فرماتے ہوئے ہمیں دین ِ حق پر چلنے کی توفیق اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔
طوبیٰ انور کا خواتین کی ہمت سے متعلق پیغام: سیدہ طوبیٰ انور نے مسکان خان کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ عورت جس ہمت کی صلاحیت رکھتی ہے اسے کبھی کم نہ سمجھیں۔