یاور مہدی: اک شجر سایہ دار تھا، نہ رہا

811

۔1960ء کے عشرے کے اوائل میں گھر میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو آیا تو خوشی کی وہ کیفیت محسوس ہوئی جو بچوں کو عید کے دن اور شب برات کی میں ہوتی ہے۔ یعنی ریڈیو آنے کے بعد دن عید اور راتیں شب برات ہوگئیں تھیں، اس دور میں ابلاغ کا سب سے بڑا اور طاقتور ذریعہ ریڈیو ہی تھا۔ ریڈیو سے تقریباً ہر طبقے کے لیے مختلف النوع پروگرام پیش کیے جاتے تھے جو نہایت دلچسپی سے سُنے جاتے تھے۔ اُس دور کے پروڈیوسروں میں ایک نام جو اپنے منفرد، دلچسپ، مُفید اور رنگا رنگ پروگرام پیش کیے جانے کے سبب سب سے زیادہ مقبول ہوا وہ نام تھا ’’یاور مہدی‘‘ ریڈیو کے حوالے سے ان کے والہانہ لگاو اور جذبے کو محسوس کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اللہ نے اُنہیں ریڈیو کے لیے ہی تخلیق کیا تھا۔ وہ ایک ذرخیز ذہن کے مالک تھے جس کا استعمال اُنہوں نے بھرپور طریقے سے کیا اور نتیجے میں ہر خاص و عام سے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ساٹھ اور سترّ کے عشروں میں ریڈیو پاکستان، کراچی اور یاور مہدی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ریڈیو کو اْنہوں نے عام آدمی کی ضروریات میں شامل کردیا تھا۔ یاور مہدی نے جو مشہور زمانہ پروگرام پیش کیے اور جن کی پزیرائی اور پسندیدگی کی سند ہر خاص و عام کی طرف سے ملی اُن میں کرکٹ میچوں پر ’’اُردو کمنٹری‘‘ طلبہ اور دیگر نوجوانوں میں ادبی شعور بیدار کرنے کی خاطر ’’ادبی محاکمہ‘‘ عوام اور خاص طور پر تاجر طبقے کو کسٹم قوانین سے آگہی فراہم کرنے کے لیے ’’کسٹم قوانین‘‘، درآمدات اور برآمدات کے کاروبار سے منسلک افراد اور اُس کے فروغ کے لیے بنیادی معلومات سے بھرپور پروگرام ’’درآمدات و برآمدت‘‘ پاکستان میں مختلف کاروبار اور منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کے لیے پروگرام ’’پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع‘‘ پرانے گیتوں، غزلوں اور ادبی تبصروں پر مبنی پروگرام ’’صبح دم دروازہ خاور کھلا‘‘، روزآنہ صبح آٹھ بجے کراچی اسٹیشن سے نشر کیا جاتا تھا۔ اسی نوعیت کا ایک اور پروگرام ’’شب کو ہے گنجینہ گوہر کھلا‘‘ رات میں نشر ہونے والا آخری پروگرام ہوتا تھا۔ اس پروگرام میں ’’بزم طلبہ‘‘ کی پرانی اور نئی ریکارڈنگ سے مختلف اقتباسات پیش کیے جاتے تھے جو معلومات عامہ سے بھرپور ہوتے تھے۔ نوجوان اور خصوصاً طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو پر کھنے اور اُنہیں جلا بخشے کی غرض سے ایک اور پروگرام پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’کوئز چیلنج‘‘۔ یاور مہدی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے نوجوانوں اور خصوصاً طلبہ کی ذہن سازی کی، ان کی ذہنی طبع اور میلان کی مناسبت سے اُنہیں مُستقبل کا راستہ چْننے کا شعور دیا اور اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بھرپور معاونت اور رہنمائی کی۔ اُن کی رہنمائی اور ذہن سازی کی بدولت جو افراد مختلف شعبوں میں درجہ کمال کو پہنچے اُن میں یوں تو ان گنت افراد شامل ہیں لیکن اختصار سے کام لیا جائے تو چند نمایاں ناموں میں رضا ربانی، جاوید جبار، دوست محمد فیضی پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، خوش بخت شجاعت، منفرد اسلوب کی شاعرہ پروین شاکر، سیدّ افتخار عارف،سر کاظم پاشا، نیلوفر عباسی، منور سعید، نقاش کاظمی و جاذب قریشی، پروفیسر محمد فائق، سینئر صحافی و سعت اللہ خان، معین اختر اور اپنے دور کے مشہور و معروف طالب علم رہنما شفیع نقی جامعی قابل ذکر ہیں۔ نیز کرکٹ میچوں پر اْردو میں رواں تبصرہ کرنے والے مْنیر حسین اور حسن جلیل بھی یاور مہدی ہی کی دریافت ہیں۔
یاور مہدی نے 13جنوری 1938ء کو پرتاب گڑھ (یوپی) کے ایک علمی و دیندار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اْن کی ددھیال جون پور جبکہ ننھیال کا تعلق پرتاب گڑھ سے ہے۔ یاور مہدی نے جامعہ لکھنو سے گریجویشن کیا جبکہ جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ لکھنو میں دوران تعلیم اْن کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے نکھرنے اور پھولنے پھلنے کا موقع ملا۔ یاور مہدی کی سوانح ’’ہم کا استعارہ‘‘ کے مصنف سیدّ عون عباس نے اپنی مذکورہ تصنیف میں جامعہ لکھنو سے اْردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر افضال احمد کے یاور مہدی سے متعلق یہ الفاظ رقم کیے ہیں ’’ٹانڈہ (ضلع فیض آباد، یوپی) سے جب یاور مہدی لکھنو یونیورسٹی کی فضا میں وارد ہوئے تو اْردو ادب کے بڑے بڑے ستون اْستاد کی شکل میں ان کے سامنے ایستادہ تھے، اْس وقت اْردو کے صدر شعبہ سیدّ حسن ادیب تھے، دیگر پروفیسر ز میں آل احمد سرور، سیدّ احتشام حسین، ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی، ڈاکٹر وحید مرزا، اور سیدّ راغب حسین شامل تھے۔ یاور مہدی مطالعے کے رسیاتھے اور پھر غور و فکر کی عادت نے اْن کی شخصیت میں ٹھیراو پیدا کر دیا‘‘۔
پہلی مرتبہ اپنے دوست تقی شاہ کے ذریعے یاور صاحب تک رسائی ہوئی تو میری خوشی کی عجیب کیفیت تھی کہ آج میں اْس شخصیت کے سامنے ہوں جس کا تاثر پتھر پر نقش کی طرح ذہن پر ثبت ہے۔ اْس زمانے میں یاور مہدی ابوذر غفاری کو آپریٹیو ہاسنگ سوسائٹی کے اعزازی سیکرٹر ی تھے۔ دوران گفتگو تقی شاہ نے اْن سے میری ملازمت کی سفارش کی، جواباً اْنہوں نے فرمایا کہ وہ نظر رکھیں گے، کچھ دیر بعد ہم وہاں سے روانہ ہوگئے مجھے محسوس ہوا کہ یاور صاحب نے ملازمت کے سلسلہ میں ایک رسمی سا جواب دیا ہے اور اس بارے میں اْمید رکھنا فضول ہے اور یوں یہ بات ذہن سے محو ہو گئی، لیکن میری خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی جب دو روز بعد ہی تقی شاہ کا فون آیا اور اْنہوں نے کہا کہ ’’کمر کس لو، یاور صاحب نے تمہارے لیے اپنی ہی سوسائٹی میں جگہ نکال لی ہے اور کل سے کام پر جانا شروع کردو‘‘۔
اور یاور صاحب کے طفیل میں آج بھی ان کی قائم کی ہوئی ہائوسنگ سوسائٹی میں بر سر روزگار ہوں۔ تو یہ تھے یاور صاحب جنہیں خدائے لم یزل نے اعلیٰ صفات اور خوبیوں سے متصف کیا تھا۔ یاور صاحب جیسی نابغہ روزگار، ہر دلعزیز اور اعلیٰ صفات سے متصّف شخصیت کو دست قضانے 18جنوری 2022ء کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا، آج وہ ہم میں نہیں اللہ رب العزت اْن کے لواحقین، دوستوں اور ہزاروں چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا کرے اور اْنہیں جوار سیدّ الشہداء میں متمکن فرمائے۔
راحتیں خلق کو پہنچائیں، بصد شوق تمام
اور خالق سے صلا پا چکے یاور مہدی
صاف بتلاتا ہے یہ مصرعہ تاریخ وفات
سایہ خْلد تک اب آچکے یاور مہدی
(کوثر نقوی)