ساڑھے 3 سال بعد 18ویں ترمیم میں نقائص کا ذکر حیران کن ہے

199

کراچی (تجزیاتی رپورٹ: محمد انور) قوم حیران ہے کہ وزیراعظم عمران کو اچانک ہی آئین کی 18 ویں ترمیم کی خامیوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا خیال کیوں آگیا۔ عوام بدگمان ہے کہ کہیں وزیراعظم آئین کی 18ویں ترمیم کی خامیوں کو سامنے رکھ کر ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ صدارتی نظام حکومت کی راہ ہموار کرنے
کے اپنا کردار ادا کرنے کی تیاری تو نہیں کر رہے ہیں؟۔ خیال رہے کہ اتوار کو سابق سفارت کاروں تھنک ٹینک کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اختیارات صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہو گئے، ملک میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بل پاس کرانے کے لیے اکثریت کی ضرورت ہے، ہم قومی اسمبلی سے بل پاس کراتے ہیں تو سینیٹ میں پھنس جاتے ہیں،اگر آپ ریفارمزنہیں کرنا چاہتے تو سب کو خوش کر سکتے ہیں جبکہ میں اور میری ٹیم اپنی ڈائریکشن پر بہت کلیئر ہیں۔ ملک کے آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم سے اب وزیراعظم عمران خان بھی مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیںحالانکہ اس ترمیم کے بعد 2018 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیاب ہوکر وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت اقتدار کا مسلسل چوتھا سال گزار رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں کی گئی اس ترمیم کے نقصانات اپنے اقتدار کے 3 سال بعد نظر آنے لگے ہیں۔ بہرحال یہ بات بھی واضح نہیں ہے اور نہ ہی کسی جانب سے کی جا رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان صدارتی نظام کے حامی ہیں یا نہیں، اب تک اس معاملے میں حکومت کی جانب سے خاموشی یا پراسرار رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ پوری قوم آئین کی 18ویں ترمیم کی خرابیوں کو سمجھنے میں 3 سال گزار لینے والے وزیراعظم سے یہ بھی سوال کرنے پر حق بجانب ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے 18 ویں ترمیم کے ممکنہ نقصانات کو سمجھنے میں اتنا وقت لگایا۔ اس بات سے بھی لوگ وزیراعظم عمران اور ان کی جماعت کی سیاسی بصیرت کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ویسے تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے۔ اس ترمیم کو سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے اور صوبہ سندھ کے بہترین مفادات کی تکمیل کے لیے منظور کرایا تھا اس کا فائدہ وہ اب اپنی سندھ حکومت میں بھرپور طریقے سے اٹھا رہے ہیں۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سیاسی اذہان کے لوگ آئین کی ’’چائنا کٹنگ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ملک کے عوام کو سیاسی صورتحال کے تناظر میں عمران خان کے 18ویں ترمیم کے حوالے سے بیان کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں، تاہم قوم کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے سوال کا جواب کا جواب کون دے گا۔