پا کستان میں احتساب کے نام پر انتقام

612

بدقسمتی سے پاکستان میں احتساب کا لفظ سننے کے فوراً بعد جو الفاظ ذہین میں آتے ہیں وہ انتقام اور انتخاب ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں اکثر ادوار میں احتساب کے نام پر انتقام ہی لیا گیا اور بعض حلقے احتساب کے موجودہ عمل کو بھی اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ یہاں احتساب کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور کبھی انتخاب سے قبل یا بعد میں لوگوں کو توڑنے اور جوڑنے کے لیے احتساب کی فائلیں کھولی اور بند کی جاتی ہیں۔
احتساب اور بدعنوانیوں کے خلاف تحقیقات پاکستان میں کسی بھی حکومت کے بڑے نعرے ہوتے ہیں۔ جب بھی حکومتی سطح پر بدعنوانی کے خلاف مہم کا آغاز کیا جاتا ہے تو متعدد سرکاری ادارے تحقیقات کے لیے سیکڑوں کیس کھول دیتے ہیں۔ اس ماحول میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا یہ احتساب یا کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات کا اختیار تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہے یا کام صرف مخصوص ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آج بھی اس کام کے لیے ایف آئی اے، آئی بی، کسٹمز، اے این ایف وغیرہ تک کو جھونک دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا یہ حال ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور ملک 140ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ بعض حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر انتقام لینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ان کے بقول آج کے نیب اور احتساب آرڈی ننس کے تانے بانے ایبڈو، پوڈو، پروڈا، احتساب کمیشن اور ڈیفنس آف پاکستان رولز سے ملتے جلتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں اور سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بنانے، فلور کراسنگ، جوڑ توڑ اور سیاسی وفاداریاں خریدنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔1949ء میں عوامی نمائندوں کی نااہلی کا قانون ’’پروڈا‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔
اس قانون کے تحت مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین یا وزرا وغیرہ کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرنے، اقربا پروری، ناجائز اثاثے رکھنے بد عنوانی اور رشوت ستانی جیسے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس قانون کا نفاذ 14 اگست 1949ء کے دن سے قرار دیا گیا۔ مذکورہ بالا الزامات کے تحت ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش، حمید الحق چودھری اور افتخار ممدوٹ وغیرہ کو سزائیں سنائی گئیں مذکورہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ ملزم کو 10 سال کے لیے ناہلی مقرر کی گئی تھی۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کے سیاسی مخالفین شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ دوسری جانب حکومت اس کے ذریعے چند ایک سیاستدانوں کے سوا تمام کی وفاداریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ پروڈا کے بعد صدر ایوب خان کے دور میں پوڈو اور ایبڈو کے قوانین بنائے گئے، جن کے تحت سیاستدانوں کے ساتھ بیوروکریٹس اور سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا اس قانون کے تحت حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو سختی سے کچل ڈالا بہت سے افسران قابو میں آئے اور سیاستدانوں کی وفاداریاں خریدی گئیں۔ اس کے تحت عوامی نمائندوں کو چھے سال کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ مذکورہ رولز ایوب خان کے دور کے بعد بھی نافذالعمل رہے اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بھی ان رولز کو نافذالعمل رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اگرچہ پروڈا یا پروڈو نافذالعمل نہ تھے، تاہم جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی اور اپنے دیگر سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے متذکرو بالا رولز اور دیگر قوانین کے ساتھ فوجی عدالتوں کا سہارا لیا اور فوجی عدالتوں نے چن چن کر حکومت کے مخالف سیاست دانوں کو سزائیں دیں، جس سے بہت سے سیاست دانوں نے اپنی وفاداریاں بدل دیں۔میاں نواز شریف نے فوجی عدالتوں کو اپنے دوسرے دور حکومت میں بھی جاری رکھا اور ’’احتساب‘‘ کے نام پر مخالف سیاست دانوں کو خوب رگڑا۔ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کرکے نیب آرڈیننس کے تحت سیاسی حریفوں، سیاستدانوں، بیورو کریٹس، وزرا، امرا کے خلاف بد عنوانی، اقربا پروری، ناجائز اثاثوں، آمدن سے زیادہ اخراجات اور رشوت کے الزامات کے تحت ریفرنس بنائے۔ متعدد سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کو سزائیں دی گئیں جس سے بہت سے نام ور سیاست داں اپنی وفاداریاں بدل کر حکومت کے ساتھ شامل ہو گئے۔
یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا آج بھی احتساب کے نام پر نیب کو حکومت مخالف حلقوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور نیب غیر جانبدارانہ انداز میں کارروائی نہیں کررہا ہے۔ بعض سیاست دانوں کا موقف ہے کہ نیب کی کارروائیاں یک طرفہ ہیں۔ نیب کے حوالے سے شکوک و شبہاہت اس لیے بھی ہیں کہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ فلاں فلاں کو گرفتار کرائیں گے۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔ وزیراعظم کے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نیب کو استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کا بارہا عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے فیصلوں میں ذکر کیا ہے اور حال ہی میں اٹارنی جنرل جاوید این ڈی خان نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا ہے کہ گرفتاریوں سے پہلے بھر پور تحقیق ہونی چاہیے اس طرح کی گرفتاری سے صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان نہیں ہو رہا بلکہ ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہورہا ہے، جس کا اثر ملکی معیشت اور اسٹاک ایکسچینج پر بھی پڑ رہا ہے۔
حکومت کی احتساب کی پالیسی کے بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات قائم ہیں مثلاً سابق وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، پنجاب کے وزیر علیم خان اور عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری، خسرو بختیار اور دیگر لیکن ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا سوائے علیم خان کے اور پھر انہیں بھی چھوڑ دیا گیا جبکہ دوسری طرف حکومت کی مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو صرف الزامات کی بنیاد پر ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ نون لیگ احتساب سے بچنے کے لیے شور مچاتی رہتی ہے اور ان کے خیال میں اگر آج نیب کی کارکردگی بہت اچھی نہیں ہے تو اس کی بھی ذمے دار نون لیگ خود ہی ہے اور پیپلز پارٹی یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہمارے خلاف نیب حکومت کے ایما پر مقدمات قائم کررہی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی نیب پر جانبداری کا الزام صحیح ہے؟۔ اس کا شبہ اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے جب وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امور احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر کی جانب سے گزشتہ روز اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان سامنے آنے کے بعد سے ملک کے مختلف حلقے طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ بحث مباحثے کررہے ہیں اور مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ خبر بھی آئی ہے کہ وزیراعظم ان سے ناراض تھے کہ وہ مخالفین بالخصوص شہباز شریف کے خلاف مقدمات اس سطح پر قائم نہ کر سکے اور عوام کا پیسہ بے دریغ استعمال کیا اور وہ مطلوبہ نتائج جن کی وزیر اعظم کو توقع تھی وہ نہ دے سکے۔
شہزاد اکبر کے رخصت ہونے پر ملک میں احتساب کے عمل کے بارے میں ایک بار پھر بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں، پوچھا جارہا ہے کہ کیا کوئی نیا بیانیہ آرہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں احتساب کا عمل ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں احتساب کا نظام اپنی شفافیت اور ساکھ قائم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ ہمارا احتساب کا نظام بھی دنیا بھر کے ممالک سے مختلف ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک میں بھی احتساب کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے سب کا یکساں احتساب ہوتا ہے مگر پاکستان میں احتساب صرف اور صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ احتسابی عمل بھی تقسیم ہے اگر کسی معزز جج کا احتساب ہو تو اس کے لیے صدر پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی فوجی افسر پر الزام لگے تو فوج کا اپنا احتسابی نظام ہے اور اس کے مطابق کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ وطن عزیز میں سب اس بات پر متفق ہیں نیب کا موجودہ ادارہ ایک آمر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قائم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ بدعنوان سیاست دانوں کا احتساب کرتا ہے سزا اور جزا کا فیصلہ دنیا بھر میں معزز عدالتیں کرتی ہیں لیکن یہ ادارہ عدالتوں کے فیصلوں سے پہلے ہی سیاست دانوں کو گرفتار کرتا ہے اور بعد میں ریفرنس عدالتوں میں بھیجتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکم رانی نہیں ہے دوم، پارلیمنٹ ہاؤس، جیسے عوامی نمائندگی کا ادارہ کہا جاتا ہے اس کا وجود تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ چناں چہ ضرورت اس بات کی ہے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کی جائے، احتساب کا نظام جاری رہے، مگر اس میں انتقام کا رنگ نہیں جھلکنا چاہیے۔