آہ عقیل بھائی

861

ہفتہ 9 نومبر کی صبح میں بے خبر سو رہا تھا کہ سیل فون کی گھنٹی مسلسل بجنے کی وجہ سے آنکھ کھل گئی۔ فون سنا تو نیند کا خمار ہوا ہوگیا۔ دوسری طرف میرے عزیز دوست سید محمد احسن نقوی ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے یہ المناک اطلاع دی کہ عقیل بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ عقیل بھائی کا پورا نام عقیل احمد تاتاری تھا وہ عرصہ دراز سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نیویارک امریکا میں مقیم تھے۔ عقیل بھائی مجتہد اعظم پاکستان مولانا سید محمد محسن نقوی کے داماد اور احسن نقوی ایڈووکیٹ کے بہنوئی تھے۔ اپریل 1981 میں ان کی شادی مولانا محسن کی بڑی صاحبزادی سے کراچی میں انجام پائی اس موقع پر ہم سب دوستوں نے شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس وجہ سے وہ ایک یادگار تقریب بن گئی تھی۔ عقیل بھائی نہایت دلچسپ شخصیت کے مالک ہونے کے علاوہ ایک مخلص اور بے غرض انسان تھے ضرورت مندوں کی دامے، درمے، قدمے سخنے مدد کرنا گویا اْن کی فطرت ثانیہ تھی اور قابل تعریف بات یہ تھی کہ اس ہمدردی کا دائرہ صرف اْن کے دوستوں، بہی خواہوں یا خاندان کے افراد تک محدود نا تھا بلکہ کوئی بھی ضرورت مند چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر، مسلک یا قومیت سے تعلق رکھتا ہو وہ اس کی بھی اسی طرح مدد کرتے تھے جس طرح اپنے کسی قریبی عزیز کی۔
عقیل بھائی کے بزرگوں کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا وہ ایک سیلف میڈ شخص تھے انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا اور تعلیم سے فراغت کے بعد پولیس اور آرمی کو اسلحہ سپلائی کرنے کا کاروبار شروع کیا اور اس سے متعلق کئی تینیکی کورسز بھی کیے۔ ایک ہمدرد انسان اور ایک کاروباری شخصیت ہونے کے حوالے سے ان کے وسیع تعلقات تھے جن میں مجھ ایسے معمولی شخص سے لیکر اعلیٰ سرکاری عہدوں کے حامل افسران تک شامل تھے۔ تقریباً 35 سال قبل جب میں ایک بینک میں ملازم تھا میرے ایک اعلیٰ افسر نے اپنی بیٹی کے شناختی کارڈ کا فارم مع ضروری کاغذات مجھے دیا کہ اسے متعلقہ دفتر میں جمع کروا کر رسید انہیں لادوں۔ میں متعلقہ دفتر پہنچ کر لائن میں لگ گیا جب میرا نمبر آیا تو متعلقہ اہل کارنے کاغذات کا سرسری جائزہ لیکر انہیں محض اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ تصاویر جو فارم کے ساتھ منسلک کی گئی تھیں ان کے رنگوں میں معمولی فرق تھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قطار میں کھڑے رہنے کے باوجود جب فارم جمع نہ ہوا تو میں نے اہل کار کو قائل کرنیکی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ فارم جمع کرے لیکن ہمارا کلچر ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ معمولی درجے کے سرکاری اہل کار بھی عوام کے جائز کاموں میں رخنے پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا فارم جمع نہ ہو سکا اور میں وہاں سے بد دل ہوکر عقیل بھائی کے گھر چلا گیا جو وہاں سے قریب ہی تھا اور اْنہیں اپنی بپتا سْنائی انہوں نے مجھ سے فارم لیا اور کہا کہ کل کسی وقت آکر رسید لے جانا۔ اگلے دن میں اْن کے گھر پہنچا تو رسید مجھے مل گئی اور میرا مسئلہ حل ہوگیا۔ اسی نوع کے کئی اور واقعات بھی عقیل بھائی کی ذات سے وابستہ ہیں جن سے اْن کی انسان دوستی اور وسیع تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے۔
عقیل بھائی اپنے بھائیوں اور بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور اسی وجہ سے ان سب کے چہیتے تھے۔ عقیل بھائی کے ایک بہنوئی جن کا نام مرزا عصیم بیگ چغتائی تھا عالمی شہرت یا فتہ ادیبہ و ناول نگار عصمت چغتائی کے برادر صغیر تھے اور ایک مستند ہینڈ رائٹنگ و فنگرپرنٹ ایکسپرٹ تھے جن کی خدمات سرکاری ادارے خاص طور پر پولیس، ایف ائی اے اور بینکس حاصل کرتے تھے۔ عقیل بھائی کی ایک ہمشیرہ شگفتہ آپا پی اے ایف اسکول میں ٹیچر تھیں اور وہیں سے ریٹائر ہوئی تھیں جبکہ اْن کے بڑے بھائی ریاض احمد پی آئی اے میں ڈائریکٹر انجینئرنگ تھے عقیل بھائی کا تعلق ایک اعلیٰ اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ وہ ایک خوش مزاج، پر مزاح، صاف گو صاحب ثروت اور فیاض شخص تھے جو دوستی نبھانا جانتے تھے۔ اپنے وقت کے مشہور و معروف طالب علم رہنما شہنشاہ حسین رضوی ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے جبکہ علامہ سید علی مختار رضوی، جام صادق کے بھتیجے جام محبوب علی، این ایس ایف کے رہنما ڈاکٹر رشید حسن خان اور سابق صوبائی محتسب یوسف جمال کے علاوہ حسن رضوی اور سید سبطین بھی اْن کے ہم نوالہ وہم پیالہ تھے۔ عقیل بھائی کو اللہ نے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی صورت میں نہایت لائق و فائق اولاد کی نعمت سے نواز ہے دونوں بیٹیاں اور بیٹا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت نیک اطوار ہیں اور یہ سب کچھ عقیل بھائی اور اْن کی اہلیہ کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہے۔ عقیل بھائی کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پْر ہونا ناممکن ہے کیونکہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا اور عقیل بھائی بھی ایک ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ ربّ العزت انہیں جوار سیّدا شہدا میں متمکن فرمائے اور اْن کے جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)