انصاف کارڈ کی نوسربازی

826

ہم دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسی گڑھے میں گرنے والے منصوبے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں جس میں ہماری نظروں کے سامنے کوئی اور گر چکا ہوتا ہے، میں اس بارے تفصیل سے چند سال پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ حکومت کا صحت کارڈ دراصل شعبہ صحت کی نج کاری کا ایک منصوبہ ہے، جس کا آغاز پنجاب اور سندھ میں نواز شریف کے دور میں محدود پیمانے پر صحت کارڈز کے اجرا سے ہوا، اور پھر پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے اسے انصاف کارڈ کے نام سے ری برانڈ کرکے صوبہ خیبر پختون خوا میں جاری کیا۔ یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ خان صاحب کی حکومت اصل میں ایک دجالی یعنی دھوکا دہی پر مبنی حکومت ہے بقول شاعر
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
خان صاحب کو لانے والے ہر وہ کام کرنے کے لیے لائے ہیں جو نواز شریف کرنے میں ناکام رہا یا اس نے نہ کیے، نواز شریف لانے والوں کے ایجنڈے پر محدود پیمانے ہی پر کام کرسکا کیوں کہ اسے دوبارہ منتخب ہونے اور اپنے بعد مریم کے لیے بھی راہ ہموار کرنے کی فکر تھی، مگر خان صاحب کی مثال تو
اپنے آگے نہ پیچھے، نہ کوئی اوپر نیچے
رونے والا نہ کوئی رونے والی
کی سی ہے، خان صاحب کا سیاسی کردار اور میراث انہی کے ساتھ ختم ہوجائے گی، اس لیے لانے والوں کا خیال تھا خان سے وہ سب کام کروائے جاسکتے ہیں جو ایک جمہوری منتخب وزیراعظم شاید نہ کرے، مثلاً روپے کی قدر میں کمی، ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے کمر توڑ مہنگائی، پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنا اور کشمیر کا سودا۔ کچھ یہی حال صحت کا انصاف اور انصاف صحت کارڈ کا بھی ہے، جو میری نظر میں ایک نیو لبرل سرمایہ دارانہ منصوبہ ہے، یعنی پاکستانی میں صحت کے نظام کو مکمل طور پر یعنی 100 فی صد نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا ہے جیسا کہ امریکا میں ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ پہلے سرکاری اسپتالوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جاتا، پھر انشورنس کمپنیوں کے ذریعے نجی اسپتالوں میں علاج کی سہولت بطور لالی پاپ پیش کیا جائے اور رفتہ رفتہ سرکاری اسپتالوں کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اس کام کی شروعات جسٹس ثاقب نثار کے ذریعے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ جیسے اسپتالوں کی بندش سے کیا گیا، پھر سرکاری اسپتالوں کو بورڈز کے ماتحت کیا گیا۔ اب صحت کارڈ کا دائرہ کار خیبر پختون خوا کے بعد پنجاب میں بڑھایا جارہا ہے، پھر شاید بلوچستان اور سندھ میں بھی اجرا کیا جائے، یہ دراصل ایک دل فریب پھندہ ہے، خوشنما نعرہ ہے، شہد ملا زہر ہے جس کے ذریعے خان صاحب اگلے انتخابات جیتنے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ دس لاکھ تک نجی اسپتال میں مفت علاج وہ لالی پاپ جس کی مٹھاس عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت جیسے زندگی کے تلخ حقائق کو بھلانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اگر کوئی اس نظام کو سمجھنا چاہتا ہے تو چند بنیادی باتیں سمجھ لے، ایک تو یہ کہ حکومتی دعوے کے مطابق اس کارڈ کے ذریعے دس لاکھ روپے تک کا علاج مفت کروایا جاسکتا ہے، مگر حکومت یہ نہیں بتاتی کہ یہ علاج مفت نہیں، اصل میں یہ علاج انشورنس پریمیم کی ادائیگی کے عوض ہے، جو ابتدائی طور پر حکومت ادا کررہی ہے، اور یہ ادائیگی غالباً بیت المال یا زکواۃ کی مد سے کی جارہی ہے، مالی طور پر دیوالیہ پن کا شکار یہ حکومت یا مستقبل میں آنے والی کوئی بھی حکومت، کسی بھی وقت یا مرحلے پر یہ کہہ سکتی ہے کہ حکومت کے پاس انشورنس پریمیم کی ادائیگی کے لیے درکار مزید پیسے نہیں ہیں، لہٰذا اگر آپ کو اپنا صحت کارڈ زندہ یا قابل استعمال رکھنا ہے تو بیمہ کا پریمیم خود ادا کریں۔
دوسری بات جو حکومت نے واضح نہیں کی کہ یہ دس لاکھ کی حد کارڈ رکھنے والے فرد کے لیے مخصوص ہے، اس کے پورے خاندان کے لیے ہے؟ زندگی میں ایک بار کے لیے ہے یا سال میں ایک بار کے لیے؟ یہ بات ابھی واضح نہیں کی یہ سہولت کارڈ کے اجرا کے بعد تا حیات جاری رہے گی یا کسی وقت اسے واپس لیا یا ختم کیا جاسکتا۔ اگر ماضی یا موجودہ سرکاری اسپتالوں کے نظام کی بات کی جائے تو سرکاری اسپتال میں علاج معالجہ خواہ سو روپے کا ہو 25 لاکھ کا، مفت ہے، ہر کسی کے لیے مفت ہے، اور لا محدود بار کے لیے مفت ہے، یہ اور بات کہ بدعنوانی یا مالی وسائل کی کمی کے باعث ادویات دستیاب نہ ہوتی ہوں، جو کہ انتظامی اور مالیاتی معاملہ ہے جسے تھوڑی سی توجہ سے حل کیا جاسکتا ہے اور پنجاب کی سطح پر شہباز شریف نے کسی حد تک کر کے دکھایا بھی۔
تو پاکستانیو! آپ سے لا محدود اور بلا تفریق علاج کی سہولت واپس لے کر، ایک عارضی کارڈ پر محدود اور مشروط علاج کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جو کسی وقت بھی منقطع یا تبدیل شدہ شرائط کے ساتھ لاگو ہوسکتا ہے۔ اور جو نیا نظام لایا جارہا ہے، اس میں سرکاری اسپتال نجی شعے کو فروخت کر دیے جائیں گے، پینل پر موجود ہر اسپتال کارڈ کے عوض فراہم کی جانے والی طبّی سہولت کا مطالبہ زر یا بل حکومت کو بھیجے گا، وہ حکومت جس کے دیوالیہ پن کا حکومت کے اپنے اعلیٰ ترین افسران اور مشیران کرچکے ہیں، لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر حکومت ان مطالبات زر کی ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہو جائے گی، یا بہت مشکل اور تاخیر سے ادائیگیاں کرے گی۔ تاہم نیو لبرل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کارڈز کا بڑے پیمانے پر اجرا جاری رکھا جائے گا، تاکہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے، نتیجتاً روز بروز صحت کارڈ کی قبولیت محدود تر ہوتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ حکومت صحت کارڈ کے مفت ہونے کے دعوے سے دستبردار ہوجائے گی اور عوام کے پاس دو آپشن ہوں گے یا تو پریمیم کی ادائیگی خود کریں تاکہ صحت کارڈ موثر رکھا جاسکے یا نجی شعبے سے علاج کے لیے رجوع کریں۔
اس طرح نہ صرف غریب آدمی سرکاری اسپتال کی سہولت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، بلکہ نجی شعبہ کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی اور علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات بے لگام ہو جائیں گے، اور صرف وہی شخص علاج کی سہولتوں سے مستفید ہوسکے گا جو یا تو علاج معالجے کی من مانی قیمت ادا کرسکے یا انشورنس کا پریمیم ادا کرتا ہو۔ پھر ایک وقت آئے گا جب بغیر کارڈ یا بغیر ادائیگی علاج کی سہولت دستیاب ہی نہیں رہے گے، جیسا کہ امریکا میں ہے۔ بات صرف اتنی نہیں بلکہ یہ مستقبل کے ڈاکٹرز کے لیے بھی ایک ڈراؤنا خواب ہوسکتا ہے، وہ ینگ ڈاکٹرز جو آج سرکاری اسپتالوں میں آرام دہ ہاؤس جاب کے مزے لے رہے ہیں اور اس کے باوجود آئے روز مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں، سرکاری اسپتالوں کی بندش پر نجی شعبہ میں انتہائی کم تنخواہ طویل شفٹوں میں تھکا دینے والی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہوں گے۔ آگے چل کر انشورنس کا یہ نظام بدعنوانی کی نئی راہیں کھول دے گا، سیاسی مداری اور قبضہ مافیا اپنے زیرِ اثر حلقوں میں پرائیویٹ اسپتال کھولنے اور جعلی انشورنس کلیم کی رقوم حاصل کرنے کا نیا دھندہ شروع کردیں گے، جیسا کہ امریکا کے اسپتالوں میں انکشاف ہوتا رہتا ہے، یہ سیاسی رشوت کی نئی بھی قسم ہوگی جس کے ذریعے حکومت اپنے پسندیدہ اسپتالوں، دراصل ان کے مالکان کو، نوازا کرے گی، اور آج یہ حکومت سرکاری اسپتالوں پر اٹھنے والے جس بجٹ، بد انتظامی یا بدعنوانی کو بہانہ بنا کر سرکاری اسپتالوں سے جان چھڑانے کا مقدمہ پیش کر رہی ہے، وہ اس کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ انشورنس کلیم جیسے فراڈز کی ادائیگیوں میں صرف کر رہی ہوگی اور عوام اور طبی شعبے سے منسلک لوگوں کی زندگیاں، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق، الگ عذاب بن چکی ہوں گی۔