حق کا ساتھ دیجیے

497

کراچی، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دارالحکومت بنا تو ساری دنیا کی نظروں میں آگیا، خصوصاً مسلم دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ کراچی ملک کا نہ صرف دارالحکومت تھا بلکہ سب سے زیادہ تجارتی، مالیاتی، صنعتی، معاشرتی اور سیاسی فعالیت کا مظہر بھی۔ لیکن پھر ایوب خان کے مارشل لا میں ملک کا دارالحکومت کراچی کے بجائے ہری پور کے قریب، پوٹوہار کے شہر راولپنڈی سے متصل کوہ مرگلہ کے دامن میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ جس نے اہل کراچی پر بہت منفی اثر ڈالا۔ بعد ازاں جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں کراچی کو پہلے کی طرح وفاق کے ماتحت بھی رہنے نہیں دیا بلکہ سندھ کی تحویل میں دے کر اسے صوبائی دارالحکومت بنا دیا۔ یہ تو انتظامی طور پر اس شہر کے ساتھ کیے گئے معاملات تھے۔ داخلی طور پر پہلے سے چلے آنے والے ملک گیر کوٹا سسٹم کو غیر متوازن اور غیر منصفانہ شکل دے کر 1973 میں صوبہ سندھ میں نافذ کیا گیا جو پسماندہ اضلاع کو سہارا دینے کے بجائے ایک استحصالی ہتھکنڈا بن کر رہ گیا۔ اسی دور میں صوبائی لسانی بل اور کوٹا سسٹم پر کیے گئے غیر حکیمانہ فیصلوں نے سندھی اور غیر سندھی کی تقسیم پیدا کر دی۔ 1986 میں لسانی فسادات کی آگ پھیل گئی۔ جس نے شہر کو ایک لمبے عرصے کے لیے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرف دور میں کراچی ہنوز جہنم زار بنا رہا۔ سانحات و حادثات اور قتل و غارتگری نے اس شہر سے تمام رونقیں چھین لیں۔ شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا۔ تاآنکہ مشرف کے نئے بلدیاتی نظام کی قیادت نعمت اللہ خان کے حصے میں آئی جنہوں نے محترم عبدالستار افغانی کی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کو انتہائی جانفشانی سے دن رات کی محنت شاقہ کے بعد کھڑا کیا۔ کراچی شہر کا ترقیاتی بجٹ 6 ارب سے بڑھا کر 43 ارب تک پہنچایا۔ بعد ازاں نعمت اللہ کے چھوڑے ہوئے منصوبوں پر درست کام نہ ہو سکا۔ اور کچھ منصوبے تو شروع بھی نہ ہو سکے۔ البتہ شہر میں چائنا کٹنگ، نالوں پر تعمیرات اور پانی کے منصوبے کے- فور کی تکمیل نہ ہونے کے باعث مسائل نے سر اٹھایا۔
بعد ازاں مشرف کے رائج کردہ بلدیاتی نظام کو ختم کر کے شہری حکومت کا جو نظام لایا گیا اس میں شہری حکومت کو بے اختیار کر دیا گیا یہ سال 2013 تھا جب پیپلز پارٹی نے شہری حکومت سے جو محکمے چھین لیے۔ ایسے میں ایم کیو ایم کی میئر شپ پوری مدت تک چلی لیکن ماسوائے مدت پوری ہونے پر جذباتی تقریر کے علاوہ ان اختیارات کے چھن جانے پر کوئی احتجاج کی صورت سامنے نہ آئی مزید یہ کہ ایم کیو ایم اسی حکومت کا حصہ تھی جس نے یہ اختیارات چھینے اس لیے اس کو پی پی اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت کا شاخسانہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
بہر حال، اس بے اختیار شہری حکومت نے اپنے حصے کے کام کو بھی خوش اسلوبی اور مخلصانہ طریق سے انجام نہ دے کر شہر کو مسائلستان بنا دیا۔ صفائی کے ناقص نظام، سیوریج کی بدترین صورت حال، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اسے شہر کی کم نصیبی سمجھا جائے کہ تمام حکمران گروہوں اور صوبائی حکمرانوں نے کراچی شہر کو اپنا نہیں سمجھا اسے وہ اہمیت اور محبت نہیں ملی جس کا یہ اتنا بڑا،کلیدی اور اہم شہر مستحق تھا۔ اس شہر کے لیے وفاقی و صوبائی و بلدیاتی حکمرانوں کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے نہ وقت۔ شہر پر قبضے کی جنگ میں بد قسمتی سے کوئی شہر کو اپنانے کو تیار نہیں لیکن ہر ایک کو اپنا حصہ ضرور چاہیے۔
ایسے میں سال 2021 میں پیپلز پارٹی نے سندھ بلدیاتی ترمیمی ایکٹ پیش کیا جس میں شہری حکومت کے رہے سہے اختیارات بھی سلب کر لیے جس میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، سوبھراج میٹرنٹی ہوم سمیت KMC کے دیگر ادارے میڈیکل ایجوکیشن، پرائمری ایجوکیشن، بنیادی صحت کے مراکز، فوڈ و ڈرنکس کے لیے قانون سازی اور غیر منقولہ جائداد کے ٹیکس وغیرہ کے محکموں کے اختیارات شامل ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ پی پی تمام اداروں پر شب خون مار کر بے اختیار شہری حکومت کا قیام عمل میں لانا چاہتی ہے جو دنیا کے قوانین تو ایک طرف خود آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 الف کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ’’ہر ایک صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی و مالیاتی ذمے داری و اختیار مقامی حکومت کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گا‘‘۔ خیال رہے اس بار بھی جب اختیارات پر قبضہ کیا گیا ہے تو ایم کیو ایم سندھ حکومت کے ساتھ حکومت میں شریک ہے۔
سندھ حکومت کے اس ترمیمی بل کے خلاف جماعت اسلامی نے بھرپور و توانا آواز اٹھائی جو ’’حق دو کراچی کو‘‘ تحریک کے ذریعے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے عوامی رائے اور شعور کو بیدار کرنے میدان عمل میں موجود ہے۔ اور جس نے 31 دسمبر سے جاری متنازع ایکٹ کے خلاف دھرنے کے ذریعے پر عزم جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی پر عزم ہے اور اس یقین سے سرشار کہ جس طرح ماضی میں اسے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کا شہر بنایا تھا اسی طرح اب بھی اسے مسائل و مصائب سے نجات دلا کر جائز حقوق دلوا کر رہیں گے۔ اب عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ پہچانیں کہ دیانتدار قیادت کون سی ہے اور کس نے ماضی میں بھی اس شہر کی بے لوث، ان تھک اور مخلصانہ خدمت کی ہے اور کون ان کے شہر کو لاوارث چھوڑنے کے بجائے اس کو اپنا کر عوام کے شانہ بشانہ مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔