اسلامی یا سیکولر پاکستان

702

 

دوسرا حصہ
پہلی بات، انہوں نے قائد اعظم کی نجی زندگی کے حوالے سے جو کچھ کہا اس پر پرویز ہودبھوئے کا تبصرہ ہم اس تحریر کے پہلے پیرا میں بیان کر چکے ہیں، کہ قائد اعظم کی نجی زندگی کا ان کے سیاسی کردار سے کوئی تعلق نہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ قائد اعظم نے نہ صرف اپنی 42 سالہ سیاسی زندگی میں کبھی لبرل یا سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا، مگر جب ایک پارسی خاتون سے شادی کی تو انہیں مسجد لے گئے، نکاح بھی ایک عالم دین سے پڑھوایا، جناح کی بیٹی نے جب ایک غیر مسلم سے شادی کرلی، تو اس سے قطع تعلق کرلیا، اسے پاکستان آنے تک کی اجازت تک نہ دی، متحدہ ہندوستان کے غیر مسلم وائسرائے کو پاکستان کا گورنر جنرل بنانے سے انکار کردیا، انگریز کے بنائے ہوئے حلف نامے کو حرف بہ حرف پڑھنے سے بھی انکار کیا اور اس حلف نامے میں ترمیم تجویز کی جس کا ذکر آگے آئے گا، اور جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے انہیں اقلیتوں کے حقوق پر لیکچر دینے کی کوشش کی، تو پاکستان کی پہلی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر انہوں نے جوابی تقریر میں مائونٹ بیٹن کو مخاطب کرکے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت ہمارے دین کا روز اول سے حصہ ہے، ہمیں اس پر کسی اور سے لیکچر لینے کی ضرورت نہیں، اس طرح ان کی زندگی کی تمام تر تقاریر بشمول دو قومی نظریہ اس پر گواہ ہیں، کہ وہ مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ مملکت بنانا چاہتے تھے، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی زندگی اپنے دین کے بتائے ہوئے زریں اصولوں کے مطابق گزار سکیں، اْن کی 42 سالہ سیاسی زندگی کی تقاریر اور تحریریں اْن کی اسلام کے ساتھ غیر مشروط اور والہانہ وابستگی اور پاکستان کو ایک سلامی فلاحی ریاست بنانے پر گواہ ہیں، اور یہ سب کچھ ویڈیو، آڈیو اور تحریری ریکارڈ پر موجود ہے، یہ کوئی سیکڑوں ہزاروں سال پرانی بات نہیں کہ جس کو ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ دستیاب نہ ہو اور ہمیں قیاس آرائی پر گزارہ کرنا پڑے، قائد اعظم کی زندگی کا ہر پہلو بشمول ان کے سیاسی نظریات روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت شدہ ہیں، اِن حقائق کو رد یا مسخ کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہی حال قائد اعظم کی گیارہ اگست کے اس مشہور زمانہ تقریر کا ہے جس کا حوالہ فواد چودھری جیسے دین سے نابلد اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ اور پروردہ نام نہاد دانشور صبح و شام دیتے ہیں کہ اب اقلیتیں اپنی مذہبی رسوم اور عبادات میں مکمل آزاد ہیں، وہ اپنے مندروں اور کلیسا میں جانے اور اپنی ثقافت اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے میں مکمل آزاد ہیں، ریاست کو ان سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہ ہوگا، مگر جب یہ نام نہاد دانشور اِس تقریر کا حوالہ دیتے ہیں تو یہ بتانا قصداً بھول جاتے ہیں کہ اس تقریر کا پس منظر تقسیم کے عمل کے دوران پھوٹ پڑنے والے مسلم کْش فسادات تھے، جس کے جواب میں پاکستان میں بھی فسادات پھوٹ پڑنے اور مزید بڑھنے کا اندیشہ تھا، ان فسادات کے پس منظر میں محمد علی جناح نے پاکستانی قوم کو وہ پیغام دیا تھا، جو چودہ سو سال پہلے رحمت اللعالمینؐ اور ان کے پیروکاروں نے مدینہ کے یہودیوں اور غیر مسلموں کو دیا تھا، جو پیغام فلسطین، شام اور ایران کی فتح کے بعد اسلامی لشکروں کے سپہ سالاروں اور خلیفہ وقت امیرالمومنین سیدنا عمر فاروقؓ نے وہاں کے باشندوں کو دیا تھا اور وہی پیغام جو محمد بن قاسم نے فتح سندھ کے بعد سندھ واسیوں کو دیا تھا، کہ آپ اپنی عبادت گاہوں میں جانے، ان کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں تعمیر و مرمت کرنے میں مکمل آزاد ہیں، اس معاملے میں آپ سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا، ہمیں آپ کی روایات کا احترام ہے، آپ ہمارے ذمی ہیں اور آپ کی جان و مال کی حفاظت خلافت اسلامیہ کا فرض ہے۔ 11؍ اگست کی قائد اعظم کی تقریر دراصل انہی زریں اسلامی اصولوں کا آئینہ دار ہے، جن کے تحفظ کے لیے مسلمانان ہند نے سیکولر بھارت کے مقابلے میں ایک اسلامی پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ اس لیے 11؍ اگست کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اس طرح بیان کرنا کہ جیسے یہ کارل مارکس کے کمیونسٹ منشور سے مستعار لیا گیا ریاست ِ پاکستان کو لادین قرار دینے کا کوئی جدید اعلامیہ ہو، گمراہ کن بات ہے۔
اسی طرح فواد چودھری جب قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے سرکاری حلف نامے میں ترمیم کروانے کا ذکر کرتے ہیں تو کمال علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتاتے کہ جناح نے حلف نامے میں تبدیلی کا یہ خط اس وقت کے ہندوستان میں برطانوی راج کے نمائندے لارڈ مائونٹ بیٹن کو لکھا تھا، یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے اور حلف نامہ کسی مولوی یا پاکستان کی اسمبلی کا منظور کردہ نہیں بلکہ برطانوی راج کا مسلط کردہ تھا، جناح اس انگریزی حلف نامے کو حرف بہ حرف نہیں دہرانا چاہتے تھے، یہ بات جناح کی زندگی میں دیے گئے ہزاروں بیانات، سیکڑوں، تقریروں، درجنوں تحریروں اور ان کے مسلسل عمل کے عین مطابق تھا، جس میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک مکمل طور پر آزاد اسلامی ریاست پاکستان کا حصول چاہتے تھے، جو قابض نوآبادیاتی برطانوی راج اور کسی ممکنہ تنگ نظر ہندو اکثریت کے غلبے سے مکمل آزاد ہو، نہ کہ محض انتقال اقتدار۔ اِس کی سب سے جِلی اور واضح مثال محمد علی جناح کا لارڈ مائونٹ بیٹن کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر تسلیم نہ کرنا تھا، وہ چاہتے تو بھارت کی طرح لارڈ مائونٹ بیٹن کو گورنر جنرل مان کر خود نہرو کی طرح وزیر اعظم بن سکتے تھے، مگر قائد اعظم جانتے تھے کہ مسلمانان ہند نے ایک پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان کی صورت میں نو آبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی، نہ کہ بھارت کی طرح انگریز سے محض اقتدار کی منتقلی۔ میں اس بات کا پوری شرح صدر کے ساتھ قائل ہوں کہ اگست 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی قبضے سے دو ملکوں پاکستان اور بھارت نے نہیں، بلکہ صرف ایک ملک پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی، انگریز تو نظام اور جغرافیائی حدود میں بغیر کسی تبدیلی کے اقتدار کی منتقلی کا خواہاں تھا اور یہی کانگریس کا منشور بھی تھا، جس طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کو آزادی ملی ہے، جہاں وزیراعظم تو ہے، مگر ملکہ برطانیہ کا بطور سربراہ رسمی کردار آج بھی آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، انڈین نیشنل کانگریس کو بھی یہ بات قبول تھی کہ برطانوی راج ہی میں کوئی ایسا انتظام ہوجائے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنا یوم آزادی 14 اگست کو مناتا ہے، اور پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد 15 اگست 1947 کو بچے کچے ہندوستان میں محض ایک رسمی انتقالِ اقتدار کے بعد تاجِ برطانیہ کے ہندوستان میں آخری نمائندے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن ہی بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنے، مگر قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک آزاد مسلمان ریاست کے سربراہ کے طور پر قابض نو آبادیاتی ریاست کے نمائندے اور ایک غیر مسلم کی تعیناتی قبول نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اْنہیں انگریز کے بنائے ہوئے اس حلف نامے پر بھی اعتراض تھا، جو بالکل اسی طرز پر لکھا گیا تھا، جس طرح برطانوی حکومتی عَمال یا عدالتوں میں لیا جاتا تھا۔
فواد چودھری نے یہ بھی بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس حلف نامے میں کوئی اسلامی شق، اللہ، رسول یا قرآن سے منسوب کوئی ایسی بات، شق یا نکتہ نہیں تھا، جسے قائد اعظم نے علماء کی رائے کے برعکس نکالنے کا حکم دیا ہو، بلکہ یہ واقعہ از خود پاکستان بننے سے پہلے اور حلف نامہ برطانوی راج کی نشانی تھا، جس میں قائد اعظم نے ترمیم کے لیے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے آخری نمائندے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو خط لکھا، نہ کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی یا آزاد پاکستان کے کسی قانون ساز ادارے یا علماء کی کسی مجلس کو۔ اس بات کو یہ رنگ دینا کہ قائد اعظم نے مذہبی شقیں نکال دیں اور حلف نامے کو سیکولر بنا دیا، بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف اور تاریخی حقائق اور شواہد سے رو گردانی اور علمی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔
(جاری ہے)
لن ترانی کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے فواد چودھری نے مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کا ذکر کیا، اور حسب توقع تاریخی پس منظر اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا، مولانا ابولکلام آزاد جنہیں امام الہند بھی کہتے ہیں، ابتدا ہی سے انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے، محمد علی جناح بھی ابتداً انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے، مولانا آزاد تقسیم ہند کے بلند بانگ مخالف تھے، مگر وہ اسلام کی حقانیت کے کلی طور پر قائل اور مغرب سے درآمد تازہ جدیدیت کے سخت ناقد تھے، معلوم نہیں کہ فواد چودھری نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتنی اور کون سی کتب کا مطالعہ کیا ہے، مگر جو لوگ مولانا کے سیاسی اور مذہبی رجحانات اور ان کی تحریروں اور عملی جدوجہد سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مولانا نے جس وقت انگریز سامراج اور سماج کے خلاف لکھنا شروع کیا اس وقت ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ انگریز کی غلامی پر راضی برضا تھا بلکہ انگریزی تہذیب سے اس قدر متاثر تھا کہ اسلامی اصول و مبادی میں تحریف کر کے اسے جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی باتیں کرتا تھا۔ مولانا اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے اور دین و دنیا کی تفریق کے قائل نہ تھے، وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی بقا اسلام سے جڑے رہنے اور اسلام پر قائم رہنے میں ہے۔ تاہم مولانا کا ماننا تھا کہ مسلمانانِ ہند کا مستقبل متحدہ ہندوستان سے وابستہ ہے، اور تقسیم ہندوستان دراصل مسلمانوں کی قوت اور اجتماع کو تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے، یہ سیاسی فہم اور تاویل کا اختلاف تھا، جس کے درست یا غلط ہونے پر تو بات ہو سکتی ہے، مگر یہ کہنا کہ مولانا ابو الکلام آزاد مسلمان ریاست ہی کے قائل نہیں تھے، تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی نظریہ جمعیت علماء ہند کا بھی تھا۔ ان میں کوئی بھی اسلامی ریاست کے وجود کا منکر نہ تھا، مگر ہندوستان کے معروضی حالات میں تقسیمِ ہند کا مخالف تھا۔
مولانا مودودی کا معاملہ اِن دونوں سے الگ تھا، مولانا مودودی علامہ اقبال طرح علامہ شبلی نعمانی کے فکری کام کو لے کر آگے بڑھے، وہ مولانا آزاد کی طرح متحدہ ہندوستان کے قائل نہ تھے، ان کی تصنیفات نے متحدہ ہندوستان کے بت کو پاش پاش کرکے رکھ دیا تھا، ان کی تحریروں نے قطعیت کے ساتھ ثابت کردیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، اور تنگ نظر ہندو اکثریت مسلمانوں کے لیے زہر قاتل تھی، اور مسلمانوں کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی وجود کے لیے خطرہ تھی، اْن کی کتاب مسلمانان ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش آل انڈیا مسلم لیگ چھپوا کر مقدمہ پاکستان کے طور پر مفت تقسیم کرتی رہی۔ اس موضوع پر اتنی مدلل اور مفصل کتاب اس سے پہلے اور بعد لکھی ہی نہیں گئی۔ علامہ اقبال اْن کی تحریر الجہاد فی الاسلام پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ مولانا مودودی کو اشتراک عمل کی دعوت دی، اور علامہ اقبال ہی کے ایما پر مولانا مودودی نے پٹھان کوٹ میں ایک تعلیمی اور تربیتی پروجیکٹ کی بنیاد ڈالی، افسوس کے علامہ اقبال 1938 میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، اور یوں مولانا مودودی تنہا رہ گئے، علامہ کی وفات کے چار سال بعد 1942 میں مولانا مودودی نے اْسی درس گاہ میں جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی، اور تقسیم ہند کے بعد وہ مستقلاً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مغربی پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہو گئے، حالانکہ ان کا آبائی علاقہ حیدرآباد دکن، ان کا دوسرا مستقر دہلی اور ان کی درس گاہ کا علاقہ پٹھان کوٹ بھارت میں شامل تھے، اگر وہ قیامِ پاکستان کے مخالف ہوتے تو بھارت ہی میں سکونت اختیار کر کے اپنا کام جاری رکھتے، جیسا کہ ابوالکلام آزاد اور جمعیت العلمائے ہند کے اکابرین نے کیا، اور سب کچھ قربان کر کے پاکستان منتقل نہ ہوتے۔ قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم نے اْنہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی، اور قیام پاکستان کے بعد اولین برسوں میں قائد اعظم کے حیات ہوتے ریڈیو پاکستان مولانا کے درس اور انٹرویو نشر کرتا رہا، قرار داد مقاصد کی تیاری اور اسے آئین کا حصہ بنانے میں مولانا کا کردار نہایت اہم تھا، ان کا آل انڈیا مسلم لیگ سے اختلاف اس نکتے پر تھا کہ مسلم لیگ کے پاس جو ٹیم تھی وہ خود اسلامی علوم سے نابلد تھی، مولانا یہ سمجھتے تھے کہ اگر ایسی ٹیم کے ساتھ پاکستان حاصل کر بھی لیا گیا تو یہ ٹیم اس ملک کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گی، اس لیے ان کا ماننا تھا کہ پہلے مسلمانانِ ہند کی ذہنی اور روحانی تربیت کی جانی چاہیے، اور پھر ایک تربیت یافتہ ٹیم اسلامی ریاست کے قیام کے نصب العین کو آگے لے کر چلے، اس مقصد کے لیے انہوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور کسی بھی موقع پر قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی وہ ریاست کے وجود کے خلاف تھے، جیسا کہ فواد چودھری نے باور کرانے کی کوشش کی۔
اس بیان میں جہاں فواد چودھری ایک طرف مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی علمی کاوشوں اور اہمیت کا تذکرہ کرتے ہیں، وہیں اپنی کم علمی کے باعث مولانا مودودی کی شہرہ آفاق تفسیرِ قرآن، موسوم بہ تفہیم القرآن کو، ابوالکلام آزاد کی تفسیر قرآن سے خلط ملط کردیتے ہیں، ان کے بقول مولانا آزاد کی تفسیر کو دنیا بھر میں قبول عام حاصل ہوا، حالانکہ فی الواقع یہ تفہیم القرآن کا خاصہ ہے، فواد چودھری کو تو شاید یہ بھی علم نہ ہو کہ مولانا آزاد کی تفسیر کا نام کیا ہے، کتنی جلدوں پر مشتمل ہے اور کیا وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا بھی سکے یا ان کی یہ علمی کاوش ناتمام رہ گئی تھی۔
اسی طرح ہماری نئی نسل کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اسلام کوئی پاپائیت کا نظام نہیں، جیسا کہ یورپ میں دین اور دنیا کی تفریق کے بعد ویٹی کن میں مروج ہے، بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو زندگی کے ہر گوشہ اور ہر پہلو پر محیط ہے، محمدؐ محض ایک مبلغ یا واعظ نہیں تھے، بلکہ ایک ریاست کے بانی اور حکمران بھی تھے، تاجر اور جرنیل بھی تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں سربراہ مملکت ہی مسجد کا امام بھی تھا۔ اسی سنت پر خلافت راشدہ قائم رہی، اور چودہ سو سال سے امت کا اس پر اجماع ہے، کہ اسلام ایک مذہب یا رسوم اور پوجا پاٹ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، سماجی اور معاشی نظام ہے، جسے مکمل طور پر نافذ کیے بغیر اس کے ثمرات اور فیوض و برکات سے مستفید نہیں ہوا جا سکتا، اس لیے جب فواد چودھری یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ملک تو ضرور بنا رہے تھے، مگر اسلامی ریاست بنانا مقصود نہ تھا، تو دراصل وہ ایک گمراہ کن نظریہ کا پرچار کر رہے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ قائد اعظم کے فرمودات و ارشادات کے برعکس ہے، بلکہ مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی تصنیفات، امت کے صدیوں پر محیط علمی اور عملی اتفاق رائے، اور خود تعلیمات نبوی و قرآنی احکامات کے خلاف ہے، جو الحکم اللہ الملک اللہ اور اْدخلو فی السلم کافہ کا درس دیتے ہیں، یعنی ملک اور حکومت دونوں اللہ کے ہیں اور دین میں پسند نا پسند نہیں بلکہ مکمل نفاذ اور پورا پورا داخل ہونا ہی مطمحِ نظر ہے۔ اس لیے علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی