بیگانی شادی میں شہباز گل دیوانہ

709

یوتھوپیا کے وزیراعظم کے معاون خصوصی کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ پاکستان میں موٹرسائیکل بنانے والی کمپنی اٹلس ہونڈا نے نومبر 2021 میں کل 128،503 موٹرسائیکلیں فروخت کیں جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ یہ بیان پڑھ کر کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی بقول شاعر حیران ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں۔ شہباز گل صاحب وزیراعظم کے ان نو رتنوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہیں وہ بالخصوص اس مغرب سے درآمد کرکے لائے ہیں جسے وزیراعظم سے بہتر کوئی نہیں جانتا، لہٰذا وزیراعظم کے ذوق، علم، جغرافیہ، ریاضی اور ’’مواشیات‘‘ کی طرح ان کا معاونین خصوصی و مشیران کا انتخاب بھی لاجواب ہے۔ دیگ میں سے ایک چاول چکھنے والے محاورے کے مصداق اب جناب شہباز گل صاحب کے اس بیان ہی کو لے لیجیے، مملکت خداداد کے وزیراعظم کے ایک درآمد شدہ معاون خصوصی، جن کی مزید خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ایک عالمی معیار کی امریکی یونیورسٹی سے عالم فاضل کی سند بھی ہے اور ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، اس پر ان کا انتہائی مکروہ اور تحقیر آمیز لہجہ اور دس گز لمبی غیر پارلیمانی زبان۔۔۔ یعنی کریلا وہ بھی نیم چڑھا۔۔۔
زیر تبصرہ بیان میں موصوف ایک نجی کمپنی کی بنائی موٹر سائیکلوں کی فروخت پر شادیانے بجا رہے ہیں، گویا یہ ان کی حکومت کا کوئی کارنامہ ہو، اور اگر بات محض اتنی ہوتی تو بھی قابل درگزر ہوتی کہ چلو حکومت نے سازگار کاروباری ماحول فراہم کیا شاید اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہوں مگر ان کا یہ بیان زمینی حقائق اور منڈی میں طلب و رسد کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں کہ موٹر سائیکلوں کی فروخت میں یہ اضافہ کیوں کر بغلیں بجانے کا نہیں بلکہ نوحہ و مرثیہ خوانی کا متقاضی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ پاکستان میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بنائی نہیں بلکہ جوڑی یا اسمبل کی جاتی ہیں، زیادہ تر انجن اور پرزہ جات درآمد ہوتے ہیں، اور اس حکومت نے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور اسے مشکل ترین بنانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی، اگر موٹی موٹی بات کریں تو کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ نے درآمدی مال کئی گنا مہنگا کردیا ہے، جو موٹرسائیکل آج سے تین سال پہلے 80 ہزار روپے کی تھی آج ایک لاکھ پچاس ہزار کی ہے، اس قدر گرانی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں موٹر سائیکلوں کی فروخت سمجھ سے بالاتر لگتی ہے، حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ مہنگائی تو ہوئی ہے، مگر آمدن میں اضافہ بھی ہوا ہے، نتیجتاً قوت خرید بڑھی ہے، یہی وجہ ہے کہ فروخت میں اضافہ ہوا، مگر ایسا کہنا بھی خلاف واقعہ ہے۔ اصل وجوہات جاننے سے پہلے یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موٹر سائیکل ہو یا گاڑی دونوں پٹرول سے چلتی ہیں اور پٹرول پاکستان کے درآمدی واجبات کا سب سے بڑا سبب ہے، ہر سال پاکستان اربوں ڈالر کا پٹرول درآمد کرتا ہے، جس پر وہ قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے جو پاکستان میں کمیاب ہے، جس کے لیے ہمارے غیور وزیراعظم کو کبھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور پیرس کنسورشیم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے تو کبھی چین، عرب امارات اور سعودی عرب کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے، اس لیے موٹرسائیکل یا گاڑیوں کی فروخت کوئی نیک شگون یا قابل فخر کارنامہ نہیں کہ ایک طرف تو انجن اور پرزے درآمد ہوتے ہیں تو دوسری طرف درآمدی پٹرولیم مصنوعات کا استعمال بڑھ رہا ہے، اگر یہ نکتہ سمجھ آگیا تو آگے چلتے ہیں۔
قبل و مابعد کورونا دنیا میں حکومتیں ایک طرف تو اس بات کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ کس طرح خودکفالت حاصل کی جائے اور درآمدات پر انحصار کم ہو تو دوسری طرف فاضل فیول یعنی پٹرول اور گیس کے بجائے قابل تجدید یعنی رینوو ایبل انرجی جیسے کہ سولر یا شمسی توانائی وغیرہ پر منتقل ہوا جائے، پھر ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو لے کر عالمگیر کانفرنسوں میں ہر ملک نے اس عہد کا اعادہ کیا ہے کہ دھوئیں اور گرمی پیدا کرنے والے آلات اور مشینری کا استعمال ترک کیا جائے گا، گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں ماحولیاتی آلودگی، ماحول دشمن گیسیں اور درجہ حرارت میں اضافہ کا بڑا سبب ہیں، اس لیے جدید شہروں میں ٹریفک کو کم از کم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں، ان اقدامات میں مواصلاتی نظام کی بہتری، آن لائن کام کرنے کے رجحان کو فروغ دینا اور ماس ٹرانزٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرنا شامل ہے، تاکہ سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ مگر ہماری حکومت کی تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے، یہاں اس بات پر شادیانے بج رہے ہیں کہ لوگ موٹرسائیکل زیادہ خرید رہے ہیں، جس سے پٹرول کا استعمال بڑھے گا، سڑکوں پر ٹریفک کا ازدحام ہوگا، ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی اور جان لیوا حادثات میں اضافہ ہوگا۔اس لیے یہ اتنے بڑے پیمانے پر موٹرسائیکل سائیکلوں کی فروخت کے اسباب سمجھنا ضروری ہے، جن میں سر فہرست پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ نہ صرف شہریوں کو سستی ترین سواری فراہم کرتی ہے، بلکہ پٹرول کی بچت، ٹریفک جام اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی کرتی ہے، دوسری وجہ ہر سال حادثات میں لاکھوں موٹر سائیکلوں کا ناکارہ ہوجانا ہے، غیرمحفوظ موٹرسائیکل آسانی سے حادثات کا شکار ہوتی ہے اور نئی خریدنی پڑتی ہے۔ پاکستان کی سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی غالب اکثریت میں موٹر سائیکلیں ملوث ہوتی ہیں، اور موٹر سائیکل حادثہ گاڑی کے مقابلے زیادہ مہلک ہوتا ہے، حادثات میں مرنے والوں کی اکثریت موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے، اپنی جان سب کو پیاری ہے، کسی کو شوق نہیں کی وہ موت کی سواری کرے، مگر پھر بھی دو افراد کے لیے بنی موٹر سائیکل پر تین، چار، پانچ یا زیادہ بھی سواری کرتے نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، مہنگائی کے سبب گاڑی اور پٹرول قوت خرید سے باہر ہونا اور سڑکوں پر ٹریفک جام شامل ہیں۔
تیسری وجہ بڑے پیمانے پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی چوری ہے، جرائم کی شرح میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تین سال پہلے سالانہ گیارہ ہزار گاڑیاں اور ایک لاکھ کے قریب موٹر سائیکلیں چوری ہورہی تھیں، تبدیلی حکومت کے تین سال بعد یہ تعداد دگنا سے بھی زیادہ یعنی 25 ہزار گاڑیاں اور دو لاکھ موٹر سائیکل تک جا پہنچی ہے، ظاہر ہے اگر دو لاکھ موٹر سائیکل سالانہ چوری ہوں گی تو دو لاکھ نئی موٹر سائیکلوں کی خرید و فروخت بھی ہوگی۔ اتنی بڑی تعداد میں چوری کا بنیادی سبب بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ اور یہ سب حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چوتھی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، اب گاڑی خریدنا، گاڑی میں پٹرول بھروانا، ٹیکسی رکشا پر سفر کرنا متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ ہے نہیں، مجبوراً موٹرسائیکل خریدنی پڑ رہی ہے، اس لیے موٹر سائیکل فروخت میں اضافہ کارنامہ یا خوش خبری نہیں، ناکامی، مجبوری اور شرمندگی ہے۔ اس لیے ہمارا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ سرمایہ داروں کی چاندی کروانے اور اس پر دھمال ڈالنے کے بجائے عوام کو مناسب اور بروقت پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینی بنائے، بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ کے منصوبے بنائے، تاکہ سڑکوں پر دباؤ، ٹریفک جام، ماحولیاتی آلودگی، نایاب زرمبادلہ کے غیر ضروری انخلا اور جان لیوا حادثات میں قیمتی جانوں کے زیاں سے بچا سکے۔ امن و امان کی صورت حال بہتر کی جائے، شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دیا جائے، اور اپنی نااہلی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے سیاق و سباق سے ہٹ کر نجی شعبے میں کسی ایک کمپنی یا سیکٹر کی آمدن میں اضافے پر ڈھول پیٹنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود، ملک کی ترقی، غربت اور مہنگائی میں کمی کے لیے اپنے اقدامات اور کارناموں کی تفصیل بتائے۔ جاتے جاتے امریکی ڈگری یافتہ مشیر صاحب سے سوال ہے، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، عرب امارات، سعودیہ اور ایران میں ماہانہ کتنی موٹر سائیکل بکتی ہیں؟ امریکا، روس، کینیڈا، ہالینڈ، آئس لینڈ میں روزانہ کتنے لوگ گھر سے دفتر موٹر سائیکل پر جاتے ہیں؟ جواب مل جائے تو آگاہ ضرور کریں۔