مہنگائی کا سونامی عوام سے ٹکراگیا

589

وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد مہنگائی کا ایک اور سونامی پھر سے پاکستان کے عوام سے ٹکرا گیا ہے۔ اس کے بعد عوام جن الفاظ سے موجودہ حکومت کو یاد کر رہے ہیں وہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا۔ وزیراعظم ایک طرف راشن منصوبے کے ذریعے آٹا، دالیں اور گھی 30فی صد سستا کرنے کا اعلان کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کی حکومت گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 65 روپے فی کلو کا اضافہ کر چکی تھی اور چینی 140 سے 150 روپے میں فروخت ہونا شروع ہو گئی اور پٹرول 146 روپے کا ہوگیا۔
واہ رے تبدیلی سرکار تمہاری کیا بات ہے۔ اب بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ حکومت نے سبسڈی پروگرام کا اعلان کیا ہے اس پر کیسے عمل ہوگا۔ یہ سبسڈی غیر واضح ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حقدار افراد اس سبسڈی سے کس طرح فائدہ لے سکتے ہیں۔ کون لوگ اس کے اہل ہوں گے۔ غریب اور ضرورت مند کا تعین کس طریقے سے ہوگا؟ حکومت احساس پروگرام میں 12 ہزار روپے 3 ماہ کے بعد دے رہی ہے یعنی 4ہزار روپے ہر ماہ اور روزانہ 133 روپے میں گھر کا گزارہ کیسے ہوگا۔ اسی وجہ سے آنے والے دنوں میں اس سبسڈی کی افادیت بھی ایسے سوالات سے ثابت ہوگی۔
غریب طبقے کو یکساں کوریج دے سکے گا؟ مجھے تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے حکومت نے اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کا لائسنس منافع خوروں کو دے دیا ہے۔ حکومت کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے تنخواہ دار اور مڈل کلاس اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومت اس میں بری طرح ناکام رہی، ان تین برسوں میں ان لوگوں کے اخراجات میں اضافہ ہی نہیں ہوا ہے مگر آمدنی دن بدن کم ہوتی گئی ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی سونامی سے گزر رہے ہیں قیمتیں جس رفتار سے بڑھ رہی ہیں اس رفتار میں عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، پاکستان میں سرمایہ ہی نہیں منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ملکوں میں چلا جائے گا اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کیسے لوگوں کو ملے گا۔ اب عوام اس ملک کے آٹا اور چینی مافیا سے واقف ہو چکے ہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی طریقے سے حکومت کا حصہ یا پھر اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں جو بنیادی ضرورت کی ان اہم اشیاء پر منافع لے رہے ہیں۔ ان لوگوں کی لوٹ مار جاری ہے اور یہ لوگ ہر سال سیکڑوں ارب کا منافع با آسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان اسمبلیوں میں بیٹھے منافع خوروں کی وجہ سے لاکھوں لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوتی جارہی ہیں مگر ہماری اسمبلی میں بھی غریب کے لیے بات نہیں کی جاتی وہاں پر بھی اپنے فنڈ پر بات کی جاتی ہے۔ افسوس اس اسمبلی پر۔
حکومت یہ کہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو طبقہ ٹیکس نہیں دیتا وہ تو ملک کا سرمایہ دار، گدی نشین، قبائلی سردار، وڈیرے اور بڑے جاگیردار ہیں۔ جبکہ غریب آدمی تو بجلی کے بل، پٹرول، چینی، چائے، آٹا یہاں تک کہ ماچس پر بھی ٹیکس دیتا ہے۔ یعنی بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں والے لوگ ایک غریب آدمی کے برابر ٹیکس دیتے ہیں؟۔ موجودہ حکمراں جس ملک کو سستا ترین ملک کہہ رہے ہیں اس ملک میں سستی صرف انسانی زندگی ہے اور مہنگی روٹی ہے۔
ان تین سال میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے اور لوگوں کے بے روزگار ہونے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور یہ نجانے کب اور کہاں جاکر رکے گا۔ اب اگر اشیاء خورو نوش کی قیمتوں کا جائزہ لیں جو اگست 2018 میں تھیں اور آج تین سال بعد 2021 ان کی قیمتیں کہاں پر ہیں تو آپ حیران ہو کر رہ جاتے ہیں چینی 55 روپے تھی آج 140 سے 150 روپے فی کلو ہے، آٹا 36 روپے کلو تھا اور آج 80 روپے کلو ہے کوکنگ آئل 170 روپے تھا آج 390 روپے کا اسی طرح دوسری اشیاء خورو نوش میں بھی گرانقدر اضافہ ہوا ہے سب حکومت کی نا تجربہ کاری، نااہلی کی وجہ سے ہے۔ موجودہ حکومت گڈ گورننس میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست اور عام آدمی کی زندگی میں مسائل پیدا ہوئے اور ناقص گورننس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا سونامی عوام سے ٹکرا جاتا ہے مہنگائی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی اپنے عروج پر ہے پولیس اور بیوروکریسی میں آئے روز اکھاڑ پچھاڑ اور کئی لوگوں کو معطل کرنے کے علاوہ اس حکومت نے کوئی کمال کام نہیں کیا۔
اگر ہم اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو بیوروکریسی نے بھی اس حکومت کے لیے ’’نو لفٹ‘‘ کا بورڈ لگا دیا ہے جس کی وجہ سے اس حکومت کی مقبولیت عوام میں کم ہوتی جارہی ہے۔ اب وہ لوگ جو منتخب ہوکر اسمبلی میں گئے تھے پریشان ہیں کہ وہ عوام کو اس مہنگائی کا کیا جواب دیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ جو اب موجودہ حکومت (پی ٹی آئی) کی جگہ کسی دوسری جماعت میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ بلوچستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں دیکھنے میں آیا ہے۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اب عوام موجودہ حکومت کو بظاہر ووٹ نہیں دیں گے۔ ان میں زیادہ تر لوگ شامل ہیں جو ابن الوقت کہلاتے ہیں اور ہر حکومت کا حصہ رہتے ہیں۔ اب اس ملک کی معیشت اور عوام کے ساتھ بہت ہوگیا۔ پاکستان کے عوام اب ان سیاسی بازی گروں کو پہچانیں اور آئندہ آنے والے الیکشن میں ان کا سختی سے محاسبہ کریں۔ اس مثال کی روشنی میں۔
’’ازمودہ را ازمودن خطاست‘‘۔