برق گرتی ہے تو غریب کے آشیانے پر

667

چائنا کٹنگ کراچی کا بلاشبہ سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ جب کئی عشروں سے یہ چائنا کٹنگ ہو رہی تھی تو اس وقت ملک کے نظام قانون کی بھی چائنا کٹنگ ہوچکی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر کے وسط میں قبضہ کرکے عمارت تعمیر کرکے انہیں فروخت کیا جاتا رہا۔ اب عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ کراچی میں واقع نسلہ ٹاور ایک ہفتے کے اندر گرا دیا جائے۔ اس معاملے کی قانونی نوعیت تو یقینا وہ ہی ہوگی جو معزز عدالت نے طے کردی۔ البتہ کچھ سوالات قانون سے ہٹ کر بھی ہیں۔ یہ سوال سماجیات اور عمرانیات سے متعلق بھی ہیں جو معاشرے اور پارلیمان کی توجہ چاہیے۔ نسلہ ٹاور ناجائز تھا گرا دیا جائے گا۔ یہ قانونی پہلو ہے۔ سماجی اور عمرانی پہلو یہ ہے کہ اس ٹاور میں کچھ ہنستے بستے خاندان بھی رہ رہے ہیں جنہوں نے اپنی جائز کمائی سے جائز طریقے سے ادائیگی کرکے یہاں اپنے لیے رہائش خریدی۔ ان کے گھروں کی بجلی اور گیس کاٹ دی گئی چند دنوں کے بعد ان کے گھر زمین بوس ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان خاندانوں پر کیا بیتے گی اور انہیں یہ سزا کس جرم میں ملے گی؟۔ اس سوال سے پھر یہ بحث جنم لیتی ہے کہ شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے؟۔ ریاست اپنے شہریوں پر محض قانون کا اطلاق کرتی ہے یا ریاست ایک ماں کی طرح اپنے شہریوں کے جائز مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے؟ نیز یہ کہ قانون سماج کے لیے ہوتا ہے یا معاشرہ قانون کے لیے؟
نسلہ ٹاور ایک دن میں نہیں بن گیا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں مرکزی اور نمایاں جگہ پر ایک کثیر المنزلہ عمارت بن رہی ہوتی ہے اس وقت ریاست کے تمام متعلقہ ادارے موجود ہوتے ہیں اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پولیس بھی موجود ہوتی ہے۔ نقشے بھی منظور کیے جاتے ہیں کے الیکٹرک والے بجلی کا کنکشن بھی دے دیتے ہیں اور سوئی گیس کا محکمہ گیس بھی پہنچا دیتا ہے اور علی اعلان تمام اداروں کے سامنے ان فلیٹس کو فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے جمع پونجی اور گھر کا سونا بیچ کر یہاں فلیٹس لیے ہونگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹاور ناجائز تھا تو یہ بن کیسے گیا؟ بن گیا تو یہاں فلیٹس فروخت ہو گئے تو وہاں بجلی اور گیس کیسے آگئی۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ جب کئی عشروں سے یہ چائناکٹنگ ہو رہی تھی اس وقت ملک کے نظام تعزیر و قانون کی بھی چائنا کٹنگ ہو چکی تھی اور کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ اس مسئلہ کو روک سکے۔ ریاستی اداروں نے گویا یہاں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
قبضے ہوتے رہے اور متعلقہ ادارے خاموش رہے ایسے میں تعزیر کا کوڑا صرف ان بے گناہ خریداروں کی کمر پر کیوں برسایا جائے جنہوں نے سارے قانونی تقاضے پورے کرکے شہر کے بیچ اپنے گھر خریدے؟ اس سارے دورانیے میں جن اداروں نے اپنی اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتی، کیا قانون ان کی دہلیز پر بھی دستک دے گا؟ کیا ان کی تنخواہیں اور پنشن بھی ضبط نہیں ہونی چاہییں جو ساری واردات کے سہولت کار تھے اور جن کی غفلت کی وجہ سے آج مائیں بہنیں اور بیٹیاں اپنے گھروں کو مسمار ہوتے دیکھ رہی ہیں اور انہیں ہارٹ اٹیک ہو رہے ہیں۔ یہ قبضے کچے کے علاقے میں نہیں ہو رہے تھے کہ کسی کو اس واردات کی خبر نہ ہوسکی، نہ ہی نسلہ ٹاور علاقہ غیر میں تعمیر ہو رہا تھا کہ کراچی میٹرو پولیٹن سمیت کسی ادارے کے علم میں نہ آسکا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر کے وسط میں قبضہ کرکے عمارت تعمیر کرکے انہیں فروخت کیا جاتا رہا اور کسی ادارے نہیں ہو سکی؟ اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ نظام قانون تعزیر کا مقصد کیا ہیے؟ کیا قانون کا نفاذ مقصود بالذات ہے یا قانون کے نفاذ کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے؟ نسلہ ٹاور ایک واردات مسلسل کا نام ہے۔
کسی نے ناجائز عمارات تعمیر کی، کوئی اس کا سہولت کار بنا، کسی نے یہاں فلیٹس خریدے۔ اب اس پوری واردات کو مخاطب کیے بغیر صرف معصوم اور بے گناہ خریداروں پر قانون کی بصیرت پر سوال اٹھا رہا ہے یا پارلیمان بدلتے حالات کے مطابق قانون سازی نہ کر سکے تو اس کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ نسلہ ٹاور کو گرانے کے لیے جدید مشینری کے حصول کے حکم کے ساتھ یہ حکم بھی معزز عدالت نے دیا ہے کہ اس مشنری کا کرایہ سوسائٹی کے مالک سے وصول کیا جائے اور اگر وہ نہ دے سکے تو اس کی جائداد ضبط کرکے وصول کیا جائے۔ کیا ایسا ہی کوئی اہتمام ان خاندانوں کے لیے نہیں ہو سکتا جن کے فلیٹ مسمار ہونے جا رہے ہیں؟ ان خاندانوں کے بارے میں عدالت نے کہا ہے کہ ان کو ان کی رقم دی جائے اور رقم نہ دی جائے تو وہ متعلقہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ریکوری سوٹ کرنا ایک طاقتور کے خلاف کرنا پھر اس میں کامیاب ہو کر رقم لے لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ روایت یہ ہے کہ اس معاملے میں صبر ایوب درکار ہے۔ کیا معلوم یہ رقم ان لوگوں کو کب ملے گی اور ملے بھی کہ نہیں؟
کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ یہاں بھی ویسا ہی حکم آ جاتا کہ مالک کی جائداد ضبط کر کے ایک ہفتے میں متاثرین کو رقم ادا کی جائے اور رقم ادا کرتے ہی ٹاور گرا دیا جائے؟ قانون میں ایسی گنجائش موجود نہیں تو یہ پارلیمان کو ان خطوط پر سوچنا چاہیے لوگ سب کچھ بیچ کر گھر بناتے ہیں اور پھر جا کر معلوم ہوتا ہے کہ تو فراڈ تھا ایسے میں ان کے لیے حصول انصاف کا کوئی تیز رفتار طریقہ نہیں ہونا چاہیے؟۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ غریب پہلے جمع پونجی سے محروم ہو جائے پھر گھر بھی گرا دیا جائے اور پیسوں کی وصولی کے لیے اسے ایک طویل اور تکلیف دہ عمل کے حوالے کر دیا جائے؟ جب لوگوں کے گھر ایک ہفتے میں گرائے جا سکتے ہیں تو قانون ایسے لوگوں کو دو ہفتوں میں ان کی رقم واپس کیوں نہیں دلوا سکتا۔ کچھ ناجائز سوسائٹیوں کو محض جرمانے کرکے معاملہ حل کرلیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی بیرون ملک سے ضبط ہوکر واپس آنے والی رقم بھی مبینہ طور پر انہی جرمانوں میں ایڈ جیسٹ کرلی جاتی ہے۔ کیا یہی اصول ہر بے گناہ خریدار کے معاملے میں بطور قانون لاگو نہیں ہو سکتا یا کم از کم اتنی قانون سازی نہیں ہو سکتی کہ ایسے معاملات میں جب تک بے گناہ خریدار کو ساری رقم واپس نہ دلائی جائے تب تک اس سے چھت نہ چھینی جائے۔