وہ میرے عہد کے قد آوروں میں سب سے بلند (آخری حصہ)

458

مغرب نے تو ارسطو سے لے کر شیکسپیئر تک اپنے سیکڑوں اور ہزاروں سال پرانے کلاسیکل لٹریچر کو اسکول کے طلبہ کے لیے قابل فہم اور readable بنادیا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ ہمارے دوست شاہد وارثی اور ان کی ٹیم مولانا مودودی کی علٰیحدہ علٰیحدہ کتب کے learning outcomes پر تحقیق کر رہی ہے جہاں ہر کتاب اور مولانا کے فہم دین کا ہر پہلو ایک مرکزی خیال، اس کے گرد اگر د ذیلی نکات کا ویب بناتا ہے، اللہ کرے یہ کام جلد تشنہ تکمیل ہو۔
ہم شکر گزار ہیں ان افراد اور تنظیمات کے جو مولانا مودودی کی فکر اور لٹریچر کو مختلف فارمیٹ پر منتقل کررہے ہیں، تاہم یہ سارا کام ایک مستقل جذبہ کے ساتھ ساتھ مربوط کاوش کا تقاضا کرتا ہے۔ مولانا کا لٹریچر دنیا کی کئی زبانوں میں دستیاب ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام اہم زبانوں (بالخصوص عربی، انگریزی) میں ابھی بھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔ آج کے دور میں برانڈنگ اور مارکیٹنگ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سطحی، مادی اور سفلی اشیا کو اس انڈسٹری نے انسانوں کی ضرورت بنادیا ہے، آج مذہبیات بالخصوص مولانا کے لٹریچر کو جدید، اچھوتے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ فی زمانہ فکر کی گہرائی وگیرائی، ظاہری حسن کی بھی متقاضی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں علم نے اپنی تحصیل کے لیے بے شمار راستے تخلیق کرلیے ہیں، ان راستوں کی بھی نجانے کتنی شکلیں ہیں سوشل میڈیا اور آئی ٹی نوع بہ نوع شکلیں اختیار کررہی ہے۔ پاکستان کی 50 فی صد نوجوان نسل، اول تو کسی عالم دین کو recognise ہی نہیں کرتی، دین سے تعلق رکھنے والوں میں 3 فی صد سے بھی کم مولانا مودودی کو identify کرتے ہیں۔ نئی نسل کے نزدیک استاد، عالم، اسکالر وہ ہے جو ان کی ٹچ اسکرین پر نمودار ہوسکے، جو ان کی ایک کال پر اپنے علم کا پندار لیے سبسکرائبر کے ذاتی چینل پر حاضر ہو۔ ٹوئٹر، فیس بک نے مطالعے کے محدود رجحان کو محدود تر کردیا ہے، انسٹاگرام نے تصویر کو ہزار الفاظ (a picture worth than thousand words) ہی نہیں بلکہ تمام لغت ہائے حجازی پر غالب کردیا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب زبیر منصوری سورہ الکہف کو seven sleepers کے نام سے story telling کی تکنیک سے نئی نسل کو پڑھاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق گوندل نے خود اس ضرورت کو جان کر Maulana Maudoodi Studies (MMS) کے نام سے طلبہ وطالبات اور جدید تعلیم یافتہ ذہن کو QUIZES اور Q&A کے ذریعہ خط وکتابت کورسز کی تشکیل۔ کے لیے کمر بستہ کردیا ان دائروں کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے، موبائل ایپلی کیشنز، گوگل سرچ ایبل آپشنز، پاور پوائنٹ پریزینٹیشنز، ای بکس حتی کہ موبائل گیمز وغیرہ۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ تعلیم کا جدید تصور، بہتر تدریس کی خاطر ابتدائی جماعتوں میں زبان (languages) سے لیکر ریاضی تک کے مضامین کو کمپیوٹر گیمز پر لے آیا ہے۔
سید مودودی کی فکر جامد اور ساکت نہیں، متحرک اور نمو پانے والی (organic) ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر میں اس بات کا قائل ہوں کہ مولانا کی فکر سے سوچ بچار کے مزید سرچشمے پھوٹنے چاہییں۔ مولانا نے اسلامی کاز کی آبیاری کے لیے اسلاف سمیت رائج الوقت مناہج کے علی الرغم ایک مختلف راستہ اختیار کیا جس میں صحت مند تنقید (توصیف بھی) اور ردو اختیار کے تمام درکار آپشن کو بروئے کار لایا گیا۔ مولانا نے اسلاف کے صدیوں سے رائج طریقہ کار ( تحریر وتقریر/وعظ و تصنیف) سے آگے بڑھتے ہوئے دینی جدوجہد کے کچھ نئے سانچے (models & paradigm) اختیار کیے۔ کچھ نقادوں کے نزدیک یہ کہیں نیشنلزم اور کہیں سوشلزم سے اخذ کیے گئے تھے، حقیقت یہ ہے کہ ’’خذ ماصفا ودع ماکدر‘‘ کے اصول پر انہوں نے جدوجہد کی فکری تشکیل، انتظامی ڈھانچے اور حکمت عملی کی تراش خراش کے لیے تخلیقی اور موثر پیمانے اپنائے، جس میں حاضرو موجود سے مرعوبیت کا عنصر نہ ہونے کے برابر تھا۔ سید مودودی نے بیسویں صدی کے وسط میں وقت کی جدید ترین (most modern) اسلامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اس تنظیم کی فکری بنیادیں اس قدر مضبوط تھیں کہ زمانہ کے نشیب و فراز کے باوجود پون صدی سے یہ تنظیم انہی بنیادوں پر کھڑی ہے، یہ توایک مثبت پہلو ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ مولانا نے جس فتنہ اور سحر کو اس کے شایان شان جواب سے بکھیر کر رکھ دیا، وہ تہذیب اپنی ادارتی ساختیات، سماجیات، حرکیات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ یقینا مغرب کے روحانی اضمحلال اور روزافزوں معاشی زوال کے لیے دور سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں مگر کیا آنے والا کل ہمارا ہے، مسلمان ممالک سے ابھی اس خوشخبری کا امکان نہیں۔ اس تناظر میں وہ لوگ خو مولانا کی فکر سے متاثر ہیں، انہیں صرف سیاست نہیں بلکہ سماج، تعلیم، ابلاغ، ثقافت سمیت ہر دائرے میں روایتی ڈگر سے ہٹ کر اور پامال راستوں سے اوپر آٹھ کر سوچنا ہوگا۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی فکر اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے جماعت اسلامی جیسی منظم، متحرک اور مخلص تنظیم کا جامہ ملا۔ فکر سید کے تسلسل، اشاعت اور فروغ میں جماعت کا کلیدی کردار ہے۔ مگر یہ بھی سوچنے کا ایک دائرہ ہے کہ کہیں اس اونرشپ اور ملکیتی سوچ (possessiveness) نے عام معاشرے کو سید مودودی سے دور تو نہیں کردیا۔ ہم ایک پولارائزڈ معاشرے کے باسی ہیں جہاں لوگ لیبل اور برانڈ کو دیکھے، چکھے، برتے بغیر اپنی مخصوص رائے پر اصرار کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ نماز کی ادائیگی اور بیکری مصنوعات کی خریداری تک، کسی ٹیگ کی بنیاد پر کریں، وہاں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ عقیدے، عمل اور سماج کی اصلاح کے کچھ کام نیوٹرل انداز میں کیے جاتے رہیں۔ اس رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس پر سوچا تو جائے کہ مولانا مودودی کو کم از کم اسلام کی نشات ثانیہ کے معماروں میں سب کے لیے محبوب کیسے بنایا جائے۔ اسلامی سیاست مولانا کی فکر کا امتیاز اور شہ سرخی ضرور ہے مگر عقیدہ، تعلیم، خاندان، معیشت، اور اصلاح معاشرہ کے ذیل میں مولانا کا کنٹری بیوشن بھی کم اہم نہیں۔ کچھ ادارے اور افراد اگر یک سو ہو کر اس کام پر بھی جت جائیں، تو بھی یہ قوم، تحریک اور سید مودودی کی سراسر خدمت ہی ہوگی، ہمیں بہرحال اس کی گنجائش نکالنی چاہیے۔