فتح کابل: کتنی بڑی خبر؟

651

(آخری حصہ)

پاکستان کو اس کی اسلامی منزل تک پہنچانے کے لیے جماعت اسلامی کی اقامت دین کی تحریک بھی ہے، اہل سنت و جماعت کی نظام مصطفی کی تحریک بھی، اور تمام دینی جماعتوں کی نفاذ شریعت کی تحریک بھی، لیکن ان سب کو روکنے کے لیے مغرب کا اِستِبدادی جمہوریت نظام آڑے آتا ہے۔ مغربی جمہوریت ایک منظم طاقتور اقلیت کے غلبہ کو یقینی بناتی ہے۔ یہاں سول اور فوجی بیوروکریسی اور زمیندار سیاستدانوں کا مثلث جمہوریت کو مینج کرتا رہا ہے۔ اور اس طرح پاکستان میں اسلامی نظام حیات کے امکانات معدوم ہوتے چلے گئے۔
70 کی دہائی میں ایران میں ہلچل شروع ہوئی۔ ایران امریکا کا مسلم دنیا کا میں سب سے بڑا پارٹنر تھا۔ اور شاہ آف ایران محمد رضا پہلوی اس کا سب سے بڑا دوست۔ ایران کے علماء نے مْتَّحِد ہوکر امام خمینی کی قیادت میں شاہ اور امریکا کے خلاف ایک زبردست عوامی تحریک چلائی۔ ایران کی غیر مسلح عوام کی اجتماعی قوت نے دنیا کی سب سے مسلح قوت ایران اور امریکا کو شکست دے دی۔ ایک سال ایک ماہ کی جِدّ وجِہد کے بعد وہاں فروری 1979 میں اسلامی انقلاب آیا، اور وہاں پر قائم مغربی نظام زندگی کو سمیٹ کر پھینک دیا گیا۔ اس اسلامی انقلاب میں چونکہ کچھ ایرانی قوم پرستی اور شیعت کا بھی عْنصَر پایا جاتا تھا اس لیے بقیہ اسلامی دنیا کے لیے یہ آئیڈیل نمونہ نہ بن سکا۔ اس دوران عرب دنیا نے مل کر ایران پر چڑھائی کر دی تاکہ ایران کو کچل کر اسلامی انقلاب سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ لیکن ان سب نے اپنے آپ کو امریکی اور اسرائیلی غلامی میں ڈال کر برباد کر لیا۔
ایران کے علماء اور عوام نے امریکا کو شیطان کبیر کہا۔ امریکا کے ایران سے نکلنے کے بعد ایک سال کے اندر اندر یعنی دسمبر 1979 کو سویت یونین افغانستان میں فوج لے کر داخل ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اب ایران اور پورے عرب دنیا کے گرم پانی یعنی تیل پر قبضہ کر لے گا، اور امریکا کی برتری ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ اور اس پورے خطے میں کمیونزم کا سرخ انقلاب آجائے گا۔ افغان مجاہدین جس کی قیادت اس وقت زیادہ تر یونیورسٹی کے طلبہ پر مْشتَمِل تھی، اس نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے بندوق اٹھائی، تو اللہ کی نصرت حاصل ہوتی چلی گئی۔ ادھر امریکا بھی اپنے کو بچانے کے لیے ان کی مدد کے لیے آگیا۔ فروری 1989 میں سویت یونین کو بالآخر مار بھگایا گیا۔ اس کے بعد خود سویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ادھر فتح کے بعد مجاہدین کی ایک درجن جماعتیں مل کر حکومت کے قیام پر اورا س کے واضح نقشے پر مْتَّفِق نہ ہو سکیں۔ اور دوسری
طرف امریکا وہاں اسلامی مجاہدین کی حکومت چاہتا بھی نہیں تھا۔ اس خَلامیں تحریک طالبان ایک نئی جہادی قوت بن کر 1994میں اٹھتی ہے اور دو سال کے اندر اندر 1996میں کابل کی حکومت سنبھال لیتی ہے اور آہستہ آہستہ افغانستان کے 98فی صد علاقوں پر قبضہ کر کے شریعت نافذ کر دیتی ہے۔ ملک میں امن قائم ہو جاتا ہے، جرائم کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے، ہیروئن کی کاشت ختم کرائی جاتی ہے۔ عدل اورمْساوات قائم ہوتا ہے۔ ادھر امریکا کی اطاعت سے نکلنے، اور خدا کی اطاعت میں آنے کے جرم میں طالبان، امریکا کے زیر عتاب آتی ہے اور نائن الیون کے بہانے سے امریکا دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں کے ساتھ اکتوبر 2001 میں افغانستان پر فوجی حملہ کرتا ہے۔ شہروں میں فضا سے کارپیٹ بمباری کرتا ہے۔ اور کھنڈر بنا دیتا ہے۔ طالبان سے منسلک تمام افراد شہروں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں۔ کابل پر امریکا کی ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جاتی ہے۔ بیس سال کے گوریلا جنگ کے بعد یہ ایک اکیلا چھوٹا سا گروہ جس کا اللہ پر کامل یقین اور توکل تھا، پوری دنیا سے ٹکرا گیا۔ اور فاتح بن کر نکلا۔ امریکا کی آخری کوشش اب صرف یہ ہے کہ ہر امریکی بحفاظت وہاں سے نکل جائے۔ کابل میں طالبان کا داخلہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح رسول اللہؐ کا داخلہ فتح مکہ کے وقت ہوا تھا۔ مقابل میں کوئی طاقت نہیں اور عام معافی کا اعلان ہوتا ہے۔ تحریک طالبان نے شریعت کے نفاذ کے ساتھ اسلامی نظام حکومت کی بات کی ہے۔ افغان کا قومی اور وطنی جھنڈا ہر جگہ سے اتار کر پھینک دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ والا سفید جھنڈا لہرا رہا ہے۔ مغربی میڈیا، ملک کے اندر موجود لبرل، سیکولر، قوم پرست، نسواں پرست (Feminist) اور مغرب پرست، عناصر طالبان کے خلاف مہم میں بہت تیزی دکھا رہے ہیں۔ لیکن جب اللہ کی مدد آجاتی ہے تو دشمن کا کوئی داو پیچ کام نہیں کرتا ہے۔ تحریک طالبان کے مجاہدو! آپ کو عظیم فتح مبارک ہو۔