کراچی تیرا بانکپن لٹ گیا…

527

 

کراچی، جسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ’’عروس البلاد‘‘ (شہروں کی دلہن) اور اس کی رونقوں کی وجہ سے اسے ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا اور جو کراچی سے لے کر چترال واسکردو تک اور کشمیر سے لے کر قلات و مکران کے ساحلوں پر بسنے والوں تک کے لیے ایک طرح کا دبئی تھا، جو سب ہی کو بلا تفریق روز گار فراہم کرتا اور اس طرح سارے ملک کے عوام کے وسیلہ روز گار بن گیا تھا بلکہ یہ اب بھی سب کو روزگار پہنچا رہا ہے۔ لیکن اسے حقیقتاً نظر لگ گئی اور بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے میں کہ یہ کہیں جنوبی ایشیا کا ’’ہانگ کانگ‘‘ اور ’’دبئی‘‘ نہ بن جائے، اس لیے ساری بیرونی قوتوں نے مل کر اسے ’’دبئی‘‘ نہ بننے دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہ کیا۔ ہندو ذہن نے تقسیم ملک کی ہمیشہ مخالف کی اور پاکستان کے قیام کے راستے میں ہر طرح کی روکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن جب تقسیم ناگزیر ہوگئی تو سازشوں کے ذریعے انگریزوں سے مل کر ہندوؤں نے بعض وہ علاقے، جنہیں پاکستان میں شامل ہونا تھا، پاکستان میں شامل نہ ہونے دیے جو معاشی اعتبار سے مفید تھے۔ اس کے باوجود جب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور ہر شعبے میں مثالی ترقی کرنے لگا تو بھارت نے منظم طریقے سے اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ایک جال پھیلا دیا پہلے کشمیر میں اس نے چڑھائی کی پھر ہماری کمزور قیادت کے ذریعے اسے ایسے معاہدوں میں جکڑا، جیسے سندہ طاس معاہدہ، جس سے پاکستان زرعی لحاظ سے بانجھ ہونے لگا اور یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ پھر ملک کو توڑنے کے لیے اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی کوشش کی جو جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے کامیاب ہوئی اور پاکستان آدھا رہ گیا۔ بھارت نے اس پر بس نہ کیا۔ کراچی، جو ملک کو انتظامی، تعلیمی اور تہذیبی شناخت اور قیادت فراہم کرنے کا مرکز تھا، ملک کے انتظامی اور تعلیمی نظاموں میں خلل ڈالنے کے لیے اس نے کراچی کو نشانہ بنایا جو سارے ملک کو اعلیٰ لیاقتوں کے حامل ماہرین اور انتظامی مہارت مہیا کرتا تھا اور ملک کو بہترین تعلیمی نسلیں فراہم کرتا اور ملک کی معاشی اور انتظامی ترقی اور بہتری کا سبب بنتا رہا۔ پھر ملک کی معاشی ترقی کا ایک دروازہ بھی تھا، اس لیے بھارت نے اگلا وار کراچی پر کیا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے کراچی میں ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا، یا اسے اپنے راستے پر لے آیا، جس نے تعلیمی اداروں میں یہ پیغام عام کیا کہ اب ہمیں ٹیلی ویژن بیچ کر کلاشنکوف خریدنے چاہئیں۔ اس طرح کراچی کے نوجوانوں نے غلط راہیں منتخب کر لیں اور تعلیم سے دور ہوتے چلے گئے۔ پھر اسی نسل کے ایک طبقہ نے سیاسی جماعت کا لبادہ پہن کر سیاست میں وہ سب کچھ کیا جس نے سیاست کو دھوکا، فریب، دھونس دھاندلی اور تشدد کا ملغوبہ بنا دیا کہ سیاست چنگیزی بن گئی اور شہر یرغمال ہوگیا۔ ان ساری حرکتوں کا مقصد صرف یہ رہا کہ وہ جماعت ہمیشہ اقتدار میں رہے اور ہر طرح سے دولت بٹورتی رہے جس سے بیرون ملک دولت اور جائداد کے انبار لگتے رہیں۔ اس کے لیے چندہ، بھتا اور سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ اس کے بنیادی وسائل بن گئے۔ اس طرح جب سے کراچی پر اس مافیا کا قبضہ رہا اس وقت کا سب سے بڑا کاروبار اور آمدنی کا ذریعہ سرکاری خالی زمینوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ کرکے انہیں رہائشی پلاٹوں کی صورت میں فروخت کردیا گیا۔ کوئی علاقہ اب شہر میں ایسا نہیں رہا جہاں کوئی خالی رفاہی پلاٹ موجود ہو۔ یہ سلسلہ تو خالی زمینوں، رفاہی پلاٹوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں ہی تک محدود نہ رہا بلکہ آبادیوں کے درمیان سڑکوں کے اطراف جہاں بھی کوئی زمین موجود تھی وہ بھی قبضہ کرکے رہائشی پلاٹوں کے طور پر فروخت کردی گئی۔ یوں شہر کا سارا حسن تباہ ہوچکا اور اس کی کشادگی قبضہ مافیا کے اس مذموم کاروبار کی نذر ہوگئی اور شہریوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوئے جنہوں نے پارکوں اور کھلی جگہوں کی وجہ سے علاقے اپنے رہنے کے لیے پسند کیے اور گھر بنانے کے لیے مہنگے داموں میں زمینیں خریدیں۔ مزید افسوس جماعت اور اس کے قبضہ مافیا کی ایسی ساری سرگرمیاں ان ہی علاقوں میں ہیں جو اس کے اپنے علاقے یا اسی کے حلقہ انتخاب میں ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے یقینا اس گھناؤنے کاروبار کا نوٹس لیا اور حالیہ چند برسوں میں کراچی کی شہری انتظامیہ کو حکم دیتی رہی کہ وہ ایسی تمام زمینوں سے قبضہ ختم کرائے اور ان پر جو تعمیرات ناجائز ہوئی ہیں انہیں منہدم کردیا جائے۔ اور پھر عدالت عالیہ سندھ نے بھی نے بھی فیصلہ دیا کہ رفاہی پلاٹ کی نوعیت کو کسی بھی مقصد سے کبھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب حکومت اور اس کے شریک ہی یہ کاروبار کر رہے ہوں اور شہری انتظامیہ اس صورت حال میں بے بس یا خوف زدہ ہو تو اس کے حکم پر عمل درآمد کون کرے؟ کراچی جو ایک بہشت نظیر شہر تھا ہم نے اجاڑ دیا اپنے تعصبات سے، اپنی لڑائیوں سے، افسوس یہ ہے کہ اجڑنے کا افسوس بھی نہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں محبتیں ہی محبتیں تھیں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کون کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، کس مسلک سے ہے۔
ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گلیوں میں، بوہری بازار کے پیچھے پارسی اور مسیحی برادریوں کی اکثریت رہتی تھی اور ان تمام برادریوں کی تقریباً ساری خواتین ملازمت پیشہ تھیں۔ سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہ تھا رات کے ایک بجے بھی آمدو رفت اور کاروبار جاری رہتا تھا۔ دنیا بھر کی ائر لائنوں کے جہاز کراچی اُترتے تھے۔ مشرق بعید سے آئے ہوئے جہاز کراچی رک کر مغرب کی طرف جاتے اور یورپ کی طرف سے آئے ہوئے جہاز کراچی ہی سے مشرق بعید کی سواریاں لے جاتے تھے۔
کراچی کیا تھا امن و امان کا گہوارہ، محبت کا صدر مقام، ایک ایسا شہر تھا جہاں رہنے اور بسنے کو دل کرتا تھا۔ اب کراچی شہر نہیں لسانی، نسلی اور مسلکی گروہوں کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ شہر وہ ہوتا ہے جس کے مکینوں میں ہم آہنگی ہو، جس کا نظم و نسق سب مل کر چلائیں، جس سے جذباتی وابستگی ہو، ادب اگر یہاں رہ کر، یہاں پیدا ہو کر، یہاں پل بڑھ کر بھی امروہہ سے باہر نکلنا ہے نہ مردان سے، تو شہر میں کیسے ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ کاش ہم بھی اتنا وژن رکھتے کہ کراچی کے سب علاقوں میں لوگ ماضی کی طرح مل جل کر رہتے۔ اب حالات یہ ہیں کہ فلاں علاقہ پٹھانوں کا، فلاں بلوچوں کا، فلاں پنجابیوں کا، یہ تو پیوند ہیں جو اس شہر کو لگے ہوئے ہیں جو شہر کم عفریت زیادہ لگتا ہے۔ کراچی اب اپنے رہنے والوں کے لیے اذیت کا سامان ہے، بے پناہ ٹریفک اور ہر طرف گندگی کے ڈھیر، دکان نما ورکشاپیں پورے شہر میں پھیلی ہیں۔ میٹروپول ہوٹل سے فریر ہال تک کا علاقہ سیر کے لیے مثالی ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں سے زینب مارکیٹ جاتے ہوئے کس قیامت سے گزرنا پڑتا ہے۔
کراچی جو محبتوں کا صدر مقام تھا
اب اس شہر میں پیوند لگ گئے ہیں
کراچی تیرا بانکپن لٹ گیا…