کینیا سے سبق

486

چھوٹے سے ماہی گیری گاؤں ’’گزری‘‘ میں وہ ’’ماسی جننا‘‘ کے نام سے مشہور ہے، وہ 60 طویل برسوں سے ایک کام کرنے والی عورت رہی ہے۔ آج 78 سال کی عمر میں، وہ مزید کام کرنے یا چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں ہے، وہ اپنے کنبے پر بوجھ اور پڑوسیوں کی خیرات پرگزر بسر کررہی ہے۔ وہ ان 60 ملین کارکنوں میں سے ایک ہے۔ جن کو پاکستان میں سوشل سیکورٹی یا بڑھاپے کے فوائد کی کوریج حاصل نہیں ہے۔
یہاں سے بہت دور، ایک وادی کے وسیع میدانوں میں پھیلا ہوا ایک ترقی پزیر افریقی ملک کینیا ڈیجیٹل لین دین میں ایک انقلاب کی رہنمائی کر رہا ہے اور اپنے تمام شہریوں کو بڑھاپے اور سماجی تحفظ کے فوائد فراہم کررہا ہے۔ وہ سیلیکن ویلی آف افریقا کے نام سے موسوم ہے، کینیا میں ‘MPesa’، ایک برانچ لیس بینکنگ سروس ہے جو صارفین کو ایک عام موبائل فون کے ذریعہ سامان کی خریداری اور خدمات کے عوض ادائیگی کی فوری طور پر رقم جمع کرنے، نکلوانے، منتقلی اور ادائیگی کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ ان کے بینک اکائونٹ ایک عام موبائل فون سے جڑے ہوئے ہیں، ہر فرد، دکان اور محکمہ کا ایک منفرد نمبر ہے۔ جس سے اس رقوم کی منتقلی کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان ایک غیر رسمی کیش اکنامی پر چل رہا ہے۔ جہاں نقد ادائیگی کا نظام ہے، جو بینک میں ڈپازٹ 40 فی صد نقدی سے زیادہ ہیں۔ پاکستان آسانی سے ڈیجیٹل مالیاتی خدمات کی طرح ‘MPesa’ اپناتے ہوئے اپنی معیشت اور ٹیکسوں کا رخ موڑ سکتا ہے۔
شاید پاکستان کے لیے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ کس طرح کینیا نے ٹیکنالوجی اور ‘MPesa’ کو ملاکر اپنی 100 فی صد افرادی قوت کو بڑھاپے کے فوائد فراہم کیے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں اولڈ ایج بینیفٹ (ای او بی آئی) اسکیم کے تحت صرف 10 فی صد کارکنوں کی رجسٹریشن کروائی گئی ہے، اور باقی 90 فی صد بے آسرا اور دوسروں پر انحصار کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کینیا کی بڑھاپے کے فوائد کی اسکیم جسے ’نیشنل سوشل سیکورٹی فنڈ‘ (این ایس ایس ایف) کہا جاتا ہے اس کے لیے ہر ملازم اور ہر آجر، کارپوریٹ یا فرد کو، این ایس ایس ایف اسکیم کے تحت اندراج کروانے کی ضرورت ہے۔ آجر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ این ایس ایس ایف کی کٹوتی کی جائے، اور اس کے مساوی رقم ہر ماہ کی 15 تاریخ تک الیکٹرونک طور پر جمع کردی جائے۔ یہاں 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی شہری رضاکارانہ طور پر این ایس ایس ایف کے ساتھ اندراج کرسکتا ہے اور ادائیگی کرنا شروع کرسکتا ہے۔ کارکنان اپنا تازہ ترین این ایس ایس ایف اکاؤنٹ بیلنس چیک کرسکتے ہیں۔
کینیا کا ہر کارکن، خواہ وہ کسی کثیر القومی یا کسی شخصی کمپنی میں باضابطہ یا غیر رسمی طور پر ملازم ہو، وہ این ایس ایس ایف اکاؤنٹ کھولنے کا پابند ہے۔ ایک آجر کو لازمی طور پر این ایس ایس ایف کے لیے حصہ ڈالنا پڑتا ہے، چاہے اس کے پاس صرف ایک فرد ملازم ہو۔ اس سے لاکھوں افراد جو غیرضابطہ، غیر رسمی یا پارٹ ٹائم ملازمتوں میں کام کرنے والی ملازمتوں، نوکرانیوں، محافظوں، مالیوں، ویٹروں یا مددگار کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کو بھی این ایس ایس ایف اسکیم میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔
70 سال سے، پاکستان میں نامعلوم بیوروکریٹس اور کرپٹ لیبر انسپکٹرز آجروں کی ملی بھگت سے ملازمین کو ای او بی آئی اور سماجی تحفظ سے متعلق فوائد سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ کینیا نے ایک سادہ اور وسیع پیمانے پر اشتہاری پالیسی کے ذریعہ اس پر قابو پالیا ’’کوئی بھی آجر جو ملازم رکھنے کے 21 دن کے اندر این ایس ایس ایف کے ساتھ اندراج کرنے میں ناکام رہتا ہے یا اپنے کارکنوں کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہے اور اسے کسی عدالت عدالت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملازمین، اگر آپ کا آجر این ایس ایس ایف کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ تو براہ کرم فوری طور پر قریبی این ایس ایس ایف آفس سے رابطہ کریں، ہمارے افسران باقی کام خود کرلیں گے۔
پاکستان کی چاروں صوبائی سماجی تحفظ کی تنظیمیں، جو کارکنوں کی صحت کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں 5فی صد سے کم کارکنوں کے اندراج کے ساتھ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کینیا جہاں پاکستان کے مقابلے میں ایک چوتھائی آبادی ہے، اس کے قومی صحت انشورنس فنڈ (این ایچ ایف) میں چار گنا زیادہ کارکن رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان کے برعکس، کینیا میں، آجر کے بجائے ملازمین ہیں جن کو NHIF میں شراکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ رکن کی رجسٹریشن اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کی شریک حیات اور سارے بچے بھی صحت کی دیکھ بھال کی اسکیم کے تحت علاج معالجے کے لیے کور ہیں۔
پاکستان کو اپنے مایوس کن اور غیر فعال EOBI اور سوشل سیکورٹی کے ڈھانچے کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو چھوٹی، انتہائی ڈیجیٹلائزڈ اور نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہو۔ اگر کینیا ایک ایسا ملک ہے جو تقلید کرنے کے لیے بہت دور اور ہم سے بہت آگے ہے، تو کیا ہم پاکستان کے اپنے این سی او سی (کوویڈ 19 کا انتظام کرنے والی ایک تنظیم) سے کچھ نہیں سیکھ سکتے ہیں جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چھوٹی، پیشہ ورانہ اور ٹیکنالوجی سے چلنے والی ٹیمیں بڑے اور بوسیدہ افسر شاہی نظام کو کس طرح ختم کرسکتی ہیں۔