بلوچستان حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا دوسرا دور بھی بے نتیجہ

236

کوئٹہ(نمائندہ جسارت) بلوچستان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگیا ۔تفصیلات کے مطابق صوبائی وزرا میر ضیاء اللہ لانگو ،میر عارف جان محمد حسنی اورمیر سلیم احمد کھوسہ وزیر اعلیٰ جام کمال کی ہدایت پر اپو زیشن اراکین اسمبلی سے مذاکرات کے لیے کوئٹہ بجلی گھر تھانہ پہنچے جہاں اپوزیشن اراکین کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے ۔ میڈیا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میر ضیا لانگو نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر اپوزیشن اراکین سے ملاقات کے لیے آئے ہیں اور تمام معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹایا جائیگا۔قبل ازیں اپوزیشن کے 16 اراکین کوئٹہ کے بجلی روڈ تھانے میں گزشتہ روز بھی موجود رہے۔اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ، پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو ، شکیلہ نوید دہوار ودیگر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہمارے 3آپشنز ہیں حکومت ہمیں گرفتار کرے یا کیس سے دستبردار ہوجائے یا پھر ہمارا مقدمہ بھی درج کیا جائے ۔ ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ 18جون کا واقعہ ہوا ہمارے خلاف مقدمہ 20جون درج ہوا جب معلوم ہوا تو پولیس اسٹیشن آگئے اور گرفتاریاں پیش کیں لیکن 48گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جارہا اور مطالبات پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے ۔اس موقع پر اختر حسین لانگو نے کہا کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کیس واپس لے یا ہمیں گرفتار کرے جہاں تک بجٹ کی بات ہے تو غیر قانونی و آئینی بجٹ ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے اسی لیے ہم نے اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں صرف اپنے کارکنوں کو نوازا گیا ہے ہم کہتے ہیں کہ ان کے خلاف نیب سے انکوائری کرائی جائے تاکہ یہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا غلط استعمال نہ کریں ، یہ پیسے حکومت یا کسی کارکن کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں ۔ خاتون رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ ہمارے ایم پی ایز کو چوٹیں آئی اور وہ زخمی حالت میں پولیس اسٹیشن آئے ہیں ، جنہوں نے ایف آئی آر کٹوائی ہے ان کا طریقہ درست نہیں تھا ، ہمارے پاس حکومت کا بے اختیار وفد بھی آیا تھا اب اس میں ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ حکومت ہمیں گرفتار کرے یا پھر کیس سے دستبردار ہوجائیں ۔