کراچی بحریہ ٹاؤن پر حملہ، کیا کسی بڑے کھیل کا آغاز ہے؟ – اے اے سید

850

کراچی کے بحریہ ٹاؤن میں بدترین دہشت گردی ریاست کی آنکھ کے نیچے گھنٹوں ہوتی رہی، جسے دیکھنے والے بہت تھے، روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کو نذرِآتش کردیا گیا اور اندر داخل ہوکر مختلف مقامات پر توڑپھوڑ ہوتی رہی، عینی شاہدین کے مطابق لوگ اپنے شو روم، اپنی ذاتی پراپرٹی اور گاڑیوں کو جلتا دیکھتے رہے۔ لوگ عمارتوں سے چھلانگ لگارہے تھے، کہ اگر نہ لگاتے تو جل کر خاکستر ہوجاتے۔ ایس ایس پی سمیت کئی لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹیں اور فریکچر ہوئے۔ اخباری خبر کے مطابق یہ ہنگامہ آرائی احتجاجی دھرنا سپرہائی وے سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے باہر منتقل کیے جانے کے بعد شروع ہوا۔ مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج سے قبل مظاہرین نے سپرہائی وے پر دھرنا دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی تھی۔ بعدازاں سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی نے پولیس حکام سے بات کی اور انھیں کہا کہ مظاہرین کو گیٹ کے سامنے دھرنا دینے دیا جائے تو وہ سپرہائی کھول دیں گے۔ جس کے بعد انھیں دھرنے کی اجازت دے دی گئی۔ مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کے دوران معلوم اور نامعلوم افراد بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ توڑپھوڑ کرنے والے ان افراد نے نہ صرف رکاوٹوں کو نذرِ آتش کیا بلکہ موقع پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔

یہ تفصیلات خود بتارہی ہیں کہ سب کچھ طے شدہ تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس شہر میں ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں، یا ریاست کی آشیرباد کے ساتھ سب کچھ ہوتا رہا، اسی لیے سب تماشائی بنے رہے اور مظاہرین کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ ورنہ جس مظاہرے اور مزاج کا حکومت کو پہلے سے علم ہو وہاں اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں؟ یہ تو ایسا ہی تھا کہ جس طرح ماضی میں لسانی فسادات کرانے کے لیے پہلے کسی ایک کے خلاف ظلم کیا جاتا، پھر ظالم اور مظلوم کی لڑائی شروع ہوتی اور چلتی رہتی۔ کراچی شہر نے تو یہ سب کچھ دیکھا اور سہا ہے، اور اہلِ نظر کے مطابق کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے جس کی کچھ مزید قسطیں اب بعد میں متوقع ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود نہ مین اسٹریم میڈیا پر خبریں چلیں اور نہ ہی اگلے دن ایک آدھ اخبار کے سوا کہیں نظر آئیں۔

بحریہ ٹاون میں کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کس نے کس کے کہنے پر کیا؟ اور وفاق اور سندھ حکومت کیوں خاموش تماشائی بنے رہے؟ یہ بہت اہم سوال ہیں جن کا جواب کچھ لوگوں کو مل رہا ہے، کچھ کی تفصیلات آنا باقی ہیں۔

اصل میں بحریہ ٹاون شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی آمد کی تفصیلات بی بی سی کے ریاض سہیل نے اپنی ایک اسٹوری میں بتائی تھیں جس کے مطابق:

بحریہ ٹاؤن نے نومبر 2013ء میں ایک جدید شہر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا، جس میں مقامی پاور جنریشن اور سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کا وعدہ کیا گیا۔ اس شہر میں رہائش اور کاروبار کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں، اس درخواست فارم کی قیمت 15000 روپے مقرر کی گئی جو ناقابلِ واپسی تھی۔ ان پلاٹوں کا رقبہ 125 گز سے لے کر ایک ہزار گز تھا۔ چند ماہ میں قرعہ اندازی کے بعد ان پلاٹوں، تعمیر شدہ گھروں اور فلیٹس کی فائل کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت لوگوں سے یہ درخواستیں طلب کی گئیں اُس وقت تک کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز کہاں کیا جا رہا ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بحریہ کے اہم مقدمے میں سوال اٹھایا اور پھر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سوال کیاکہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں جب بحریہ ٹاؤن نے منصوبے کا اعلان کیا تو کیا اُس وقت بحریہ ٹاؤن یا اس کے ڈائریکٹرز کے پاس ملیر ضلع میں متعلقہ زمین موجود تھی؟ کیا لوگوں سے درخواستیں طلب کرنے سے قبل بحریہ ٹاؤن نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے یہ ہاؤسنگ اسکیم منظور کرائی تھی؟

سوال یہ تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس زمین کہاں سے آئی؟ جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ بحریہ ٹاؤن اس وقت کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے پر زیر تعمیر ہے۔ اس کی ابتدا کراچی کے ضلع ملیر سے ہوئی، اور یہ بڑھتے بڑھتے اِس وقت جامشورو ضلع کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ گوگل میپ کے ذریعے اس کی پیمائش کی جائے تو یہ 30 ہزار ایکڑ پر پھیل چکا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کا کہنا ہے کہ اس نے پانچ ہزار ایکڑ زمین عام لوگوں سے خریدی، جبکہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اسے 9385 ایکڑ زمین فراہم کی۔ بحریہ ٹاؤن نے جن عام لوگوں سے زمین خریدی اُن تمام کی زمینیں بحریہ ٹاؤن کے زیر استعمال علاقے میں نہیں تھیں بلکہ بلوچستان اور ضلع ٹھٹہ و دیگر علاقوں میں موجود تھیں۔ بحریہ نے ان زمینوں کا ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے تبادلہ کیا۔ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ زمین کا تبادلہ 1982ء سے جاری ہے، بحریہ نے ایم ڈی اے سے چار دیہات کی زمینوں کا تبادلہ کیا ہے، جس کے لیے چالیس لاکھ روپے جمع کرائے گئے ہیں۔ اس موقع پر بحریہ کے وکیل علی ظفر نے پیشکش کی تھی کہ ان کا موکل 1800 ایکڑ زمین کے لیے پانچ ارب روپے اضافی جمع کرانے کے لیے تیار ہے۔ سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر ریمارکس دیے کہ چاندی کے بدلے سونا لیا گیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایم ڈی اے نے ایک بہترین زمین کے ٹکڑے کا دور دراز علاقے میں موجود ٹکڑیوں کی شکل میں تبادلہ کردیا، اور یہ تبادلہ کالونائزیشن ایکٹ 1912ء کی خلاف ورزی ہے۔

سستی زمین کروڑوں کی تعمیرات

بحریہ ٹاؤن نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے ایک لاکھ 25 ہزار فی ایکڑ کے حساب سے زمین خریدی۔ سندھ بورڈ آف ریونیو نے ایم ڈی اے کو یہ زمین انکریمینٹل ہاؤسنگ سوسائٹی (سستے گھروں کی تعمیر) کے لیے دی تھی، جس کی بابت بتایا گیا ہے کہ حکومت کے تعاون سے خاندانوں کے لیے گھروں کی تعمیر کی جائے گی جن کا سائز 120 مربع گز سے زیادہ نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ بحریہ ٹاؤن کے قیام سے چند سال قبل 2006ء میں اس علاقے میں زمینوں کی قیمتیں زیادہ تھیں لیکن بحریہ کی آمد سے صرف دو سال قبل یعنی 2011ء میں قیمتوں میں اچانک کمی آگئی، عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کچھ واقعات میں تو یہ قیمتیں 2006ء میں موجود قیمت سے بھی نصف تک چلی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دئیے تھے کہ ایم ڈی اے نے پراپرٹی ڈیلر کا کردار ادا کیا جبکہ حکومتِ سندھ ریاست کی زمین کے تحفظ کے بجائے بحریہ ٹاؤن کی ساتھی بن گئی۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل عدالت کو بتا چکے ہیں کہ بحریہ نے 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے 213 ارب لوگوں کے پاس اقساط کی شکل میں موجود ہیں۔

ملیر ضلع 2557 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس میں پہاڑی علاقے کے ساتھ میدانی علاقے، ندی نالے اور زرعی زمینیں آجاتی ہیں۔ یہاں کئی سو گاؤں موجود ہیں لیکن انھیں ریگولرائز نہیں کیا گیا، باوجود اس کے کہ یہاں کے لوگ قیام پاکستان سے قبل سے آباد ہیں۔ دیہہ لنگجی، کونکر، کاٹھور اور بھولاڑی میں مقیم لوگوں کے مرغی فارم اور زمینیں پولیس کی مدد سے حاصل کی گئیں۔ مقامی رہائشی الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے نوجوانوں کو حراست میں لے لیا جاتا اور زمین سے دست بردار کروا لیا جاتا، حالانکہ ان کے پاس حکومت کی لیز موجود تھی، لیکن انھیں پہلا حق دینے کے بجائے بحریہ ٹاؤن کو زمین دے دی گئی۔ پھر مقامی لوگوں نے کراچی انڈیجنس رائٹس الائیس کے نام سے تنظیم بنائی جو گزشتہ کئی سال سے سراپا احتجاج ہے۔ پھر بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز جنہوں نے اس منصوبے میں اپنی جمع پونجی لگائی، ان کی بڑی تعداد آج بھی ماری ماری پھر رہی ہے، اور اب ریاست اور سیاست کے اصل کھلاڑیوں نے جن لوگوں کی زمینیں چھینی گئی انہیں، اور آج بحریہ انتظامیہ کے ظلم کا شکار متاثرین جو شاید اس مظاہرے میں شریک بھی نہیں ہوں گے، کو بظاہر آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے۔

اس واقعے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ

”بحریہ ٹاؤن پر منظم حملے کے بعد شہر میں مہاجر سندھی فسادات کا بیج بویا جارہا ہے، کردار وہی ہیں، ایک طرف پیپلز پارٹی اور قوم پرست، دوسری جانب مہاجر حقوق کے علَم بردار۔ ان دونوں سے پوچھیں کہ انہوں نے اپنے علاقوں میں کیا کیا؟ ذرا لاڑکانہ، بدین، دادو دیکھ لیں اور اس کے بعد شہرِ ناپرساں کراچی کو، جس پر ایک طویل عرصے تک ایم کیو ایم حکمران رہی۔ اب بھی پیپلز پارٹی صوبے، اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس شہر اور صوبے کے لیے کیا کیا؟ پیپلز پارٹی نے 13 سالہ دورِ اقتدار میں سندھ میں صرف تباہی پھیلائی ہے۔ ایم کیو ایم کے سابق میئر وسیم اختر نے اس شہر کو مزید تباہ کردیا۔ اب یہ دونوں مل کر لسانی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں کیونکہ ووٹ کارکردگی پر اگر ملیں تو ان کو کیا ملے گا؟ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی سے اور کراچی والے ایم کیو ایم و تحریک انصاف کی مایوس کن کارکردگی سے نالاں ہیں، لہٰذا اب اس شہر کو لسانی عصبیت کی آگ میں جھونکا جائے تاکہ اندرون سندھ سندھی عصبیت اور کراچی میں مہاجر عصبیت کو اجاگر کرکے ووٹ سمیٹے جائیں۔ یاد رہے کہ لسانی عصبیت کا تیسرا جنم بھی ایسے دور میں ہورہا ہے جب حکومت ”نادیدہ قوتوں“ کے پاس ہے۔ اب شہر میں پھر چاکنگ ہوئی ہے ”جاگ مہاجر جاگ“۔ میں پھر اسّی کی دہائی میں چلا گیا جب کھمبے بجتے بجتے یہ شہر تباہ ہوگیا۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، لہٖذا اب نوٹیفکیشن ٹون بجتی ہے۔ میرا دل پریشان ہے اور دل سے دعا ہے کہ اللہ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنادے۔ اور اس شہر کو برباد کرنے والوں کو برباد کردے۔“

بحریہ ٹاون ایشو آج کا ہو یا ماضی کا، اس پر ٹھیک اور درست مؤقف دونوں بار جماعت اسلامی کا رہا ہے۔ اور اگر کسی نے ماضی میں میرٹ پر متاثرین بحریہ کا ساتھ دیا ہے تو وہ جماعت اسلامی کراچی ہے کہ جس نے بہت سے لوگوں کو ریلیف دلایا اور آج بھی ان کے لیے جدوجہد کررہی ہے، یہاں تک کہ پبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی نے بحریہ ٹاؤن متاثرین کے لیے ڈیسک بھی قائم کیا۔ جماعت اسلامی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کم و بیش سوا لاکھ متاثرین کو اُن کا حق دلانے کے لیے سڑکوں پر احتجاجی دھرنے دیے۔ حالیہ واقعے پر بھی امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا ہے کہ

”یہ واقعہ لسانیت کو ہوا دینے کی سازش ہے۔ کراچی اور سندھ میں سندھی اور مہاجر کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی صورت میں بھی صوبے، شہر اور ملک میں لسانی فسادات کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ سیاست چمکانے اور اس واقعے کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ اُس وقت کہاں تھے جب بحریہ ٹاؤن کے چیک باؤنس ہورہے تھے؟ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں ہونے والے واقعے کا نوٹس لیں اور جو زیادتی ہوئی اس کا ازالہ کیا جائے۔ بحریہ ٹاؤن کے واقعے میں حکومتی پارٹیاں اور وڈیرے ملوث تھے، زمین پر قبضہ انتہائی افسوسناک، شرمناک اور قابلِ مذمت فعل ہے۔“ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن جلاؤ گھیراؤ کی تمام تر ذمہ داری حکومتِ سندھ پر عائد ہوتی ہے۔جلاؤ گھیراؤ کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی رہی،پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا،لاکھوں روپے کی لوٹ مار کی گئی۔قبل از وقت تمام تر اطلاعات کے باوجود کیوں عملی اقدامات نہیں کیے گئے ؟زمینوں پر قبضہ کرنے اور لوٹ مار کے واقعات حکومت کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج ہیں۔ بدقسمتی سے سندھ میں جاگیرداری، وڈیرہ شاہی اور ڈاکو راج قائم ہے جو غریبوں کا استحصال کرکے حکومتی عہدیداروں کے ساتھ مل کر زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ میں کراچی کے ہر زبان بولنے والے شہری کی جمع پونجی شامل ہے، اس لیے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ پروجیکٹ مکمل کیا جائے اور جو کچھ نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ بحریہ ٹاون حملہ معمول کا واقعہ نہیں کہ کچھ لوگ اپنے حق کے لیے اٹھے اور توڑ پھوڑ کردی۔ اس کے برعکس درحقیقت یہ واقعہ ایک مںظم منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس میں لگتا ہے کہ کسی نے کراچی کی بربادی اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے نئے کھیل کا آغاز کیا ہے جو کہ نہ صرف شہر کراچی بلکہ وطن عزیز کے مستقبل کے لیے خطرناک ہوگا، اس کھیل کو سندھ کے دیہی اور شہری عوام کو سمجھنا ہوگا اور دشمن کی لگائی ہوئی آگ میں جلنے سے اپنے آپ کو اور اپنے مستقبل کو بچانا ہوگا۔

(This article was first published in Friday Special)