ریکوڈک پروجیکٹ پر امریکی افواج کے قبضے کا خطرہ

972

راقم نے بحیثیت آڈٹ آفیسر ساڑھے 38 سال فیلڈ آڈٹ میں سندھ اور بلوچستان کی خاک چھانی ہے۔ ڈسٹرکٹ چاغی بلوچستان کوئٹہ سے پاکستان ریلوے کے ٹائم ٹیبل کے مطابق 1109 کلومیٹر ہے جبکہ اب اچھے روڈ تعمیرات ہونے کے بعد یہ فاصلہ 750 کلومیٹر سے زیادہ بنتا ہے۔ ڈسٹرکٹ چاغی کی پہاڑیوں میں 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے تھے 1974ء میں راجستھان بھارت کے خاص مقام پوکھران پر اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا جس کا جواب پاکستان نے دے دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ چاغی بلوچستان میں سینڈک کاپر پروجیکٹ ہے جو تفتان ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 25 کلومیٹر پر واقع ہے جبکہ دالبندین اور ضلع چاغی سے 100 کلو میٹر پر شمسی ائربیس فیلڈ ہے جو پاکستان ائرفورس کا فوجی اڈہ ہے اور 15 کلومیٹر پر ریکوڈک پروجیکٹ ہے۔ دفتر ڈائریکٹر جنرل جیالوجیکل سروے آف پاکستان سے ماہر ارضیات کی ایک خصوصی ٹیم نے جس میں ارضیاتی سروے کے ماہرین جو بیرونی ممالک سے اعلیٰ تربیت یافتہ تھے انہوں نے ریکوڈک پروجیکٹ کے پہاڑی علاقوں کی تقریباً ایک ماہ تک قیام کرکے کھدائی کی تھی جسے انگریزی زبان میں Drilling کہتے ہیں تو ان کو حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی کہ سونے ہیرے جواہرات کے علاوہ ایٹم بم میں استعمال ہونے والے یورینیم کی ایک وافر مقدار دریافت ہوئی تھی جس کی قیمت پاکستان کرنسی میں 7 کھرب روپے ہے۔
سابق ڈائریکٹر جنرل جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے تمام نقشوں اور جدید کیمروں سے فوٹو گرافی کے بعد ایک خصوصی خفیہ رپورٹ تیار کرکے اپنے سابق سربراہ ڈاکٹر عاصم حسین جو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی مشیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے ان کے ساتھ ایون وزیر اعظم آباد میں ان کو پیش کی تھی یوسف رضا گیلانی پاکستان سے زیادہ آصف علی زرداری کے وفادار ہیں وہ فوراً خصوصی رپورٹ لے کر ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے مِل کر مجرمانہ ذہنیت کے دونوں اشخاص نے اس خبر سے ایوان صدر سے پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ نوابزادہ لشکری رئیسانی کو خوش خبری سنائی تھی جس پر نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بلوچستان حکومت کے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی جس کے ارکان سیکرٹری معدنیات حکومت بلوچستان، صوبائی سیکرٹری خزانہ بلوچستان اور ڈائرکٹر جنرل جیالوجیکل سروے آف پاکستان کوئٹہ تھے اور پیپرا رولز 2010ء پر عمل کرتے ہوئے بین الاقوامی فرموں سے ریکوڈک پروجیکٹ کی کھدائی سمیت تمام معدنیات سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات کو بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو پر فروخت کرنے کے بعد حاصل ہونے والی رقم کا 25 فی صد حکومت بلوچستان کے سرکاری خزانے میں جمع کرانا تھا اس پروجیکٹ کے بارے میں بین الالقوامی طاقتوں امریکا، برطانیہ، روس، فرانس، بھارت، ایران، افغانستان اور اسرائیل کو بھی ہو گئی تھی۔ اسرائیلی حکومت کے حکم پر بین الاقوامی کمپنی ٹی تھیان نے ریکوڈک پروجیکٹ کے معدنیات کا تخمینہ 3.5 ارب ڈالرز لگا کر ٹینڈر حاصل کرکے کام شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف امریکی سفیر اسلام آباد سے فوری کوئٹہ پہنچ کر بلوچستان ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی تھی اور ثبوت کے طور پر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزارت دفاع کے اس معاہدے کی کاپیاں پیش کر دی تھیں جس میں شمسی ائربیس کو امریکی فوج کے حوالے لیز پر دے دیا گیا تھا ان کا موقف یہ تھا کہ ریکوڈک پروجیکٹ شمسی ائربیس کے قریب واقع ہے اس لیے اس پر امریکا کا حق ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ علاقہ پاکستان کا اور دعویٰ امریکا کا۔
راقم نے اس ساری صورتحال پر کا ایک کالم 2011ء میں شائع ہوا جس کے بعد کالم کی اصلی کاپی مع ثبوت سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو بذریعہ ٹی سی ایس بھجوا دیا تھا جس پر انہوں نے از خود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کو حکم نامہ جاری فرمایا تھا کہ ریکوڈک پروجیکٹ پر ٹی تھیان کمپنی کو جاری کیا ہوا بین الاقوامی ٹینڈر منسوخ کیا جاتا ہے اور سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق کیانی صاحب کو فوری حکم نامہ جاری کیا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو ہدایات جاری کریں کہ ریکوڈک پروجیکٹ پر فوری قبضہ کرکے مذکورہ کمپنی کے تمام ملازمین کو وہاں سے ہٹا کر واپس اپنے ملک بھیج دیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلح افواج کے افسران اور جوانوں نے بروقت کارروائی کرکے شمسی ائربیس پر قبضہ کرکے نہ صرف امریکی قبضہ چھڑایا بلکہ ریکوڈک پروجیکٹ پر فوری قبضہ کرکے اسرائیلی کمپنی کے افسران و عملے کو سخت حفاظتی تحویل میں کوئٹہ ائرپورٹ سے خصوصی طیاروں کے ذریعے واپس ان کے ممالک بھیج دیا تھا۔ راقم الحروف کو اس محب وطنی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی راقم الحروف کے چھوٹے بہنوئی شہید قسیم جاوید صدیقی اور ان کے چار سگے ماموں زاد بھائیوں کو بریوری روڈ کوئٹہ پر 5 اکتوبر 2011ء کو حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا تھا ان کے چاروں بھائی زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے تھے جبکہ بہنوئی کو شدید زخمی حالت میں سول اسپتال کوئٹہ میں میری بیوہ چھوٹی بہن کراچی سے سروے آف پاکستان کے دفتر سے اسسٹنٹ ڈائرکٹر (B-17) ریٹائرڈ ہوئی ہیں داخل کرایا تھا لیکن انہوں نے سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں کوئی طبی امداد نہیں دی بعد ازاں انہیں سی ایم ایچ کوئٹہ میں داخل کرا دیا تھا اور 17 اکتوبر 2011ء کو انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔
درحقیقت امریکا اسرائیل بھارت اور بین الاقوامی قوتوں کی نظریں بلوچستان پر 1971ء کے سقوط ڈھاکا سے لگی ہوئی ہیں راقم الحروف کو نیو جرسی امریکا سے ایک اہم شخص نے نام نہ لینے پر کہلوایا ہے کہ پنٹاگون کے حکم پر امریکا کے چھٹے اور ساتویں ایٹمی بحری بیڑے نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ دوسری طرف امریکا نے ڈیگوگارشیا اور دوسرے فوجی ہوائی اڈوں سے مسلح افواج کو شہباز ائربیس جیکب آباد اور شمسی ائربیس ضلع چاغی بلوچستان پر فوری قبضہ کرکے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے فوجی کیمپوں پر حملے کرنے کا باقاعدہ منصوبہ جاری کر دیا ہے جبکہ سی پیک پروجیکٹ گوادر جو چین کی مسلح افواج کے قبضے میں ہے امریکا اور چین میں فوجی تصادم کا خطرہ ہے۔ ایک اہم بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد اور افغانستان کی این ڈی ایس کے افسران قبائلی عمائدین اور تاجروں کے روپ میں کوئٹہ پہنچ گئے ہیں، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستانی قوم اور اراکین پارلیمنٹ سے مسلسل دھوکا اور فراڈ کر رہے ہیں کہ امریکا کو فوجی اڈے نہیں دیے ہیں جبکہ امریکا کے بین الاقوامی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر اس معاہدے کے حوالے سے ثبوت کے ساتھ خبریں مسلسل شائع ہو رہی ہیں اور بھارتی میڈیا بھی خوب اُچھال رہا ہے دوسری طرف افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان کو اس معاہدے کی تفصیلات مکمل ثبوت کے ساتھ مِل چکی ہیں اور انہوں نے حکومت پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے اپنے فوجی ہوائی اڈے ان کے خلاف امریکا کے حوالے کیے تو پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ امریکا شمسی ائربیس حاصل کرنے کے بعد ریکوڈک پروجیکٹ اور سینڈک کاپر پروجیکٹ پر فوری قبضہ کرکے نہ صرف تمام معدنیات امریکا لے جائے گا بلکہ سینڈک کاپر پروجیکٹ سے چینی انجینئروں کو وہاں سے بھگا دے گا تیسری عالمی جنگ کا شدید خطرہ ہے پاکستان خدانخواستہ سخت ترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آجائے گا۔میری چیف جسٹس عدالت عظمیٰ سے پُرزور اپیل اور درخواست ہے کہ فوری نوٹس لے کر وزارت دفاع سے تمام تفصیلات حاصل کرکے سخت کارروائی فرمائیں۔