ـ4 ارب 90 کروڑ ڈالرز منی لانڈرنگ: ازسرنو تحقیقات کب ہوگی

439

پاکستان سے سبزی، آلو، پیاز اور ٹماٹر کی بھارت سے درآمدات کی آڑ میں بھاری زرمبادلہ ڈالروں کی شکل میں دبئی کے راستے خفیہ بے نامی اکائونٹس سے اسٹیٹ بینک آف بھارت نیو دہلی کو بھیجے جا رہے ہیں اور پاکستان کے تمام کاشت کار اور سبزیوں کو برامد کرنے والے تاجر احتجاج کر رہے ہیں خصوصاً پنجاب اور سندھ کے کاشت کار اور تاجر۔ یہ سال 2010ء اور 2011ء کی بات ہے اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی یونین کے عہدیداران نے اپنی تنخواہوں اور دوسرے مسائل پر گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری طور پر دیا تھا اس کی ایک کاپی راقم کو مہیا کی تھی جس کو راقم الحروف نے اپنے کالم کے ساتھ نہ صرف اخبارات کو بھیجا تھا کالم شائع ہونے کے بعد متعلقہ اخبارات کی کاپیاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بذریعہ TCS بھجوائی، جس پر انہوں نے کارروائی کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا کو تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا کہ وہ اسٹیٹ بینک کے تمام ملازمین کی نہ صرف تنخواہوں اور الائونس میں اضافہ کریں بلکہ اس کی ایک کاپی رجسٹرار عدالت عظمیٰ اسلام آباد کو ریکارڈ کے لیے بھیجیں جس پر عملدرآمد ہوا۔ مذکورہ اخبارات میں شائع شدہ خبروں کی تصدیق چاہی تو انہوں نے متعلقہ اخبارات کی خبروں کی تصدیق کے ساتھ بتایا تھا کہ ورلڈ بینک کی آڈٹ ٹیم نے اپنے کنٹری منیجر پاکستان کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس کراچی میں غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیلات کی آمد کے سلسلے میں ریکارڈ چیک کیا تھا کہ 2015ء میں اسٹیٹ بینک کو بیرون ممالک سے 20 ارب 10 کروڑ ڈالرز کی ترسیلات آئی تھیں اور 2015ء میں مذکورہ بالا ترسیلات چار ارب 90 کروڑ ڈالرز سبزیوں کی درآمد کی آڑ میں سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سعید احمد خان کے خفیہ بے نامی اکائونٹس سے اسٹیٹ بینک آف بھارت بھجوائے گئے ہیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، سابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار، سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمود وتھرا، سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سعید احمد خان ملوث تھے۔
راقم نے اپنے کالم بعنوان ’’منی لانڈرنگ کی رقم کب واپس لائی جائے گی‘‘ میں تمام تفصیلات تحریر کرنے کے بعد ورلڈ بینک کی آڈٹ رپورٹوں کے ساتھ سابق چیف جسٹس عدالت عظمیٰ میاں ثاقب نثار کو بذریعہ ٹی سی ایس بھجوایا تھا انہوں نے میرا کالم ورلڈ بینک کی آڈٹ رپورٹ کے ساتھ محترم واجد ضیاء سابق چیئرمین جے آئی ٹی اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے (موجودہ ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے اسلام آباد) کے حوالے کی تھی، سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سعید احمد خان سے 12 گھنٹے کی سخت ترین تفتیش میں جے آئی ٹی کے دو معزز ارکان جو آئی ایس آئی اور ایم آئی کے برگیڈیئر تھے انہوں نے اگلوا لیا تھا کہ یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے سمدھی سابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار، سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا کی مدد سے ان کے خفیہ بے نامی اکائونٹس سے دبئی کے راستے بھارت بھجوائے تھے کیونکہ بھارت میں ان کا بڑا بزنس ہے جس کی دیکھ بھال ان کے بڑے بیٹے حسین نواز لندن سے کرتے ہیں اور وہ برطانوی پاسپورٹ پر لندن سے اکثر بھارت جاتے رہتے ہیں۔ بھارت کے سب سے بڑے بزنس مین جندال اور انیل امبانی ان کے بزنس پارٹنرز ہیں ان کا تحریری بیان باقاعدہ جے آئی ٹی کے Vol.10 میں موجود ہے۔
محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد میاں ثاقب نثار سابق چیف جسٹس نے مذکورہ بالا کیس اور ورلڈ بینک کی آڈٹ رپورٹ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال چیئر مین نیب اسلام آباد کو مزید تحقیقات کے لیے بھیجا تھا انہوں نے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ سے منظوری کے بعد اس خبر کو پورے پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کیا تھا جس سے ایک زلزلے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی جبکہ امریکا کے مشہور اخبار The Wall Street Journal نے اسے بڑی کوریج کے ساتھ شائع کیا تھا امریکی کانگریس اور سینیٹ کے اراکین نے باقاعدہ قراردادیں پاس کرائی تھیں جس پر امریکا کے سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ تحقیقات کے بعد ملزمان کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جائیں۔ محمد نواز شریف نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے راقم کے خلاف زہر اُگلا تھا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس اہم مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا تھا جبکہ نیب راولپنڈی نے مجھے Call Up Notice جو روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے پتے پر بھیجا تھا اور راقم کو 25-05-2015 کو مع ثبوت اسلام آباد نیب آفس میں حاضر ہونے کا حکم نامہ جاری فرمایا تھا جس پر راقم نے مورخہ 24-05-2019 کو ایک تفصیلی خط محترمہ ثمینہ رحمن اسسٹنٹ ڈائرکٹر نیب راولپنڈی کو بھجوا دیا تھا جبکہ راقم کے خلاف جیو، ARY کے اینکر پرسنز حامد میر، کاشف عباسی نے زہر اُگلنا شروع کر دیا تھا جبکہ راقم نے 12 مئی 2017ء کو روزنامہ اوصاف میں کالم ’’منی لانڈرنگ‘‘ میں تمام تفصیلات لکھ دی تھیں مورخہ 27 مئی 2017ء کو روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ایڈیٹر نے اپنے رپورٹر منظور عثمان کے ذریعے ایک خبر راقم کے خلاف شائع کی تھی کہ راقم نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا یہ جھوٹی خبر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے وزراء نے شائع کرائی تھی۔ راقم کی درخواست پر چیئرمین نیب راولپنڈی نے کراچی نیب کو تمام ریکارڈ کے لیے بھیج دیا تھا اور مورخہ 6 جون 2019ء کو نیب کراچی میں بیان ریکارڈ کرایا تھا اس کیس میں عارضی طور پر نواز شریف بچ گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس کیس کی ازسر نو تحقیقات کرکے ملزمان کو سخت سزائیں دلوائیں کیونکہ نیب راولپنڈی نے ان کے دو غیر ملکی بینک اکائونٹس کا بڑی کوشش کے بعد پتا چلا لیا ہے۔