’’جماعت اسلامی کی دعوت، اسلامی فلاحی ریاست کا قیام‘‘

468

پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلم رہنماؤں نے اس کے قیام سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس کا آئین قرآن وسنت ہو گا۔ اس کے حصول کے وقت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء بھی ایسی سرزمین کے متلاشی تھے جہاں صرف اسلام کا بول بالا ہو۔ حرام سے دور حلال کی پھلواریوں میں شب و روز بسر ہوں۔ عظیم جدوجہد و قربانیوں کے بعد اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہم نے زمین کا ایک پاکیزہ ٹکڑا حاصل کرلیا۔ پھر اس ملک کا آئین بنا جس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات کو قرار دیا گیا اور عملی زندگی کے لیے سنت رسولؐ کو تجویز کیا گیا۔ اس پاک سرزمین یعنی پاکستان کو پہلا گورنر جنرل اور وزیر اعظم، قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کی صورت میں، بہترین لیڈر ملے۔ لیکن بد قسمتی سے دشمن اس ملک کے قیام کے دن ہی سے اس کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت جیسے سانحات قیام کے ابتدائی زمانے ہی میں دیکھنے پڑے۔ بعد میں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والے، مارشل لا لگا کر اپنے لیے کرسی کا بندوبست کرنے والے فوجی جرنیل آئے یا پھر ایک مخصوص سیاسی ٹولہ ہی بار بار اس ملک پر حکمرانی کے لیے آتا رہا۔ عوام جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے تنگ آ گئے کیونکہ ملک روز بروز ترقی یافتہ ہونے کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہا تھا۔ تو ایک تیسرے بندے نے اٹھ کر تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ عوام کے دلوں میں تبدیلی کی ایک امید جاگ اٹھی۔ لوگ جوق در جوق اس پارٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ جس کا نام اس نے تحریک انصاف رکھا۔ لیکن افسوس انصاف کے نام پر بننے والے پارٹی جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھی تو ملک میں انصاف کا حصول پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو گیا۔ ملک کی عدالتیں، ادارے پہلے سے بھی زیادہ کرپشن زدہ ہوگئے۔ امید کا دامن تھامنے والے ایک بار پھر مایوس ہو گئے۔ ملک میں ہمارے ادارے غیروں کے ہاتھوں میں جانے لگے۔ دو قومی نظریہ پر ضربیں پڑنے لگیں۔ اسٹیٹ بینک اور دوسرے بڑے ادارے گروی رکھوا دیے۔ اسلامی وطن میں شراب بنانے کی فیکٹری لگانے کا اجازت نامہ دے دیا گیا ہے۔
ملک میں چار بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ان میں سے تین کو تو عوام اچھی طرح چھان پھٹک چکے ہیں۔ اب ان کو دوبارہ صادق و امین سمجھنا اور ان سے امیدیں وابستہ کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ان میں چوتھی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی ہے۔ جن کا نعرہ ہی تمام سیاسی پارٹیوں سے مختلف ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ… ان کا صرف نعرہ ہی نہیں بلکہ تمام عوامل دوسری سیاسی پارٹیوں سے مختلف ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی رکنیت خاندان و برادری، پیسہ، اسٹیٹس کی بنا پر ملتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹس، پیسہ، خاندان، کوئی چیز کام نہیں آتی۔ ادھر انسان کو تقوے کی بنا پر پرکھا جاتا ہے۔ دین کے معاملے میں اس کا شوق، لگن اور محبت دیکھی جاتی ہے۔ جماعت ایک عرصہ تک اسے اپنی تربیت میں رکھتی ہے۔ قرآن، حدیث و سنت سکھانے کے ساتھ ساتھ اسے باور کرایا جاتا ہے کہ تیرے ربّ کی طرف سے تمہارے اوپر کیا ذمے داریاں ہیں؟ اسے خلیفتہ اللہ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔ پیدا کرنے والے کی طرف سے تفویض کردہ مقصد حیات باور کروایا جاتا ہے۔ بندے میں یہ لگن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وقت، جان و مال سب اللہ تعالیٰ کا ہے اور اسی کے راستے میں نچھاور کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت سے رکنیت پانے والے جب اسمبلیوں میں جاتے ہیں تو ہر طرح کی حرام زدگی اور کرپشن سے پاک رہتے ہیں۔ ان کے گھروں کی حالت بھی ویسے ہی سادہ رہتی ہے جیسے عہدہ ملنے سے پہلے ہوتی۔ صاحب اختیار ہونے کے باوجود نہ تو ان کے دماغوں میں فتور آتا ہے نہ یہ اسکینڈلوں میں لتھڑے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں ہوں یا نہ ہوں۔ یہ اپنے مشن پر ہی رواں دواں رہتے ہیں۔ خدمت خلق ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہے۔ کوئی زمینی آفت آجائے یا آسمانی… یہ سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ یہ اس وقت صرف عام سے رضاکار ہوتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم افسر ہیں، ڈاکٹر ہیں، چودھری ہیں، یا کسی اور بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ اس وقت صرف اور صرف خدمت گار ہوتے ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کسی بھی سیاسی پارٹی میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہیں ملیں گے جتنے اس جماعت میں ہیں۔ دینوی وعصری دونوں لحاظ سے، لیکن عاجزی سے بھی بھرپور… کیونکہ انہوں نے اپنے نفس کا سودا اللہ تعالیٰ کی رضا سے کیا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کا مشن ہے کہ ملک پاکستان، اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کیا ہے تو زندگی کے ہر گوشے پر اسلام ہی کا قانون چلے۔ حق کا سایہ ہو اور باطل کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔ لوگ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں بلکہ بغیر کسی تگ ودو کے انصاف ان کی دہلیز پر ہی مہیا کیا جائے۔ شرعی سزاؤں کا نفاذ کرکے ملک میں امن و امان، سکون کی فضا قائم کی جائے۔ ظالم کی رسی دراز نہ ہو اور مظلوم کی آہ و پکار نہ ہو۔ جہالت کا خاتمہ ہو۔ مجرم دندناتے نہ پھریں۔ کشکول کی حوصلہ شکنی ہو۔ پاکستان، عالم اسلام کو ایک چھتری تلے جمع کرکے مسلمانوں کی ایک مضبوط زنجیر بنائے۔
پاکستان اندرونی طور پر مضبوط ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر باحیثیت، مضبوط، پروقار ہوکر ابھرے۔ ایسا ہوگا، ضرور ہو گا، ان شاء اللہ یہ دن دور نہیں۔ لیکن میرے ہم وطنوں اس کے لیے انتخاب آپ کا ہے۔