کے-الیکٹرک: 24 ارب روپے کی کرپشن، مجرم آزاد

587

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) 2001ء سے قبل وفاقی وزارت پانی و بجلی کے زیر انتظام ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے خوش اسلوبی سے کام کر رہا تھا اور اس کے جنریٹنگ یونٹس ویسٹ ہارف، کورنگی کریک اور پورٹ قاسم اتھارٹی پر بخیر و خوبی کام کر رہے تھے نہ صرف کراچی کے شہری و صنعتی علاقوں کی بجلی کی ضرورت پوری کی جا رہی تھی بلکہ حب اور اوتھل بلوچستان کے علاقوں کی بجلی کی ضرورت بخیر و خوبی پوری ہو رہی تھی کہ اچانک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کچھ عاقبت نااندیش دوستوں کی باتوں میں آکر کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا جن لوگوں نے یہ ’’مخلصانہ‘‘ مشورے دیے تھے انہیں دراصل پاکستان سے شدید دشمنی تھی اور وہ لوگ چاہتے بھی یہی تھے کہ کے ای ایس سی، پی ٹی سی ایل اور اسٹیل مل جیسے منافع بخش ادارے اونے پونے فروخت دیے جائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے باقاعدہ طور پر شوکت عزیز کو گمراہ کیا اور کے ای ایس سی کی نجکاری کرا دی۔ کے ای ایس سی شوکت عزیز نے دبئی کے ابراج گروپ کے حوالے کر دیا تھا اور سن کر حیرت ہوگی کہ صرف کے ای ایس سی ٹوٹل 60 لاکھ روپے میں فروخت کی گئی جبکہ خفیہ طور پر دبئی میں شوکت عزیز کے اکائونٹس میں اصل رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی گئی ہوگی۔ کے ای ایس سی کی نجکاری میں ایم کیو ایم کے لیڈران ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما شریک تھے۔
کے ای ایس سی کو دبئی کا ابراج گروپ چلانے میں ناکام ہوا پھر اس ادارے کو سیمنس انجینئرنگ کے حوالے کر دیا گیا اور سیمنس انجینئرنگ لمیٹڈ کراچی نے بغیر کوئی رقم ادا کیے اپنی کمپنی کا سامان فروخت کرتی رہی اور کے ای ایس سی کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آگئی تھی۔ جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تھی تو کراچی میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں تمام کمرشل بینکوں سے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کو تقریباً 24 ارب روپے کا قرضہ مہنگے سود پر دلوایا گیا تھا۔ 2008-09ء میں ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کے ای ایس سی کی قیادت کر رہے تھے اور انہوں نے کے ای ایس سی کی تمام عمارتیں، زمینیں تمام سازو سامان کمرشل بینکوں میں گروی رکھوا دیا تھا جو آج تک ہے جب یہ قرضہ منظور ہوا تھا تو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو حکم دیا تھا کہ وہ اس پیسے کو قطعی استعمال نہیں کریں گے اور انہوں نے اس رقم کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور سابق صدر آصف علی زرداری کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان کی بہن فریال تالپور بورڈ آف گورنر میں شامل ہو گئیں اور بقول کچھ کے ای ایس سی کے افسران و اسٹاف، فریال تالپور کو 80 فی صد شیئر کا مالک بنا دیا گیا جبکہ ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کو کے ای ایس سی سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ سابق ڈائریکٹر کے ای ایس سی تنظیم نقوی نے پریس کانفرنس کرکے کے ای ایس سی انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ5 لاکھ کنڈوں سے غیر قانونی طور پر بھتا حاصل کر رہے ہیں اور کے ای ایس سی کے 24 ارب روپے قرض کا آج تک کوئی مصرف نظر نہیں آیا اور کے ای ایس سی پر 24 ارب روپے کے مہنگے قرضے کا سود چلتا آرہا ہے جو کے ای ایس سی کی مزید تباہی و بربادی کر رہا ہے۔
راقم الحروف نے کے-الیکٹرک میں 24 ارب روپے کے قرضے کی کرپشن کی تحقیقات کے لیے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھیجی تھیں اور ثبوت کے طور پر کے-الیکٹرک کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی طرف سے چارٹرڈ اکائونٹنٹس سے منظور شدہ سالانہ بیلنس شیٹ بھی بھیجی تھیں جبکہ کے-الیکٹرک میں کرپشن، بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سلسلے میں کراچی کے تمام تاجر حضرات، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، معزز شہریوں نے لاتعداد شکایتیں نہ صرف ایوانِ صدر، وزیر اعظم ہائوس، چیف جسٹس عدالت عظمیٰ، چیف جسٹس عدالت عالیہ سندھ مع چیئرمین نیپرا کو بھیجی تھیں اور نیب کراچی کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ٹیموں نے تحقیقات بھی شروع کر دی تھیں لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت، مع وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کے وزراء اور وزیر اعظم کے تمام وفاقی وزراء، سابقہ اور موجودہ گورنرز حکومت سندھ نے نیب کے افسران کے سرکاری فرائض میں سخت رخنہ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ کے-الیکٹرک کے سابقہ سی ای او اور ابراج گروپ کے سابقہ سربراہ عارف نقوی اس وقت لندن کی جیل میں امریکی حکومت کی درخواست پر قید میں ہیں کیونکہ انہوں نے نہ صرف امریکا میں جعلی کمپنیوں کے ذریعے امریکی شہریوں سے اربوں ڈالرز کا فراڈ کیا تھا بلکہ سال 2019-20ء میں حکومت پاکستان سے 38 ارب روپے کی سبسڈی میں کرپشن اور خورد برد کی تھی۔ 2018-19ء میں انہوں نے پی ٹی آئی کی تمام قیادت کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ راقم الحروف کو کے-الیکٹرک کے اعلیٰ افسران نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا ہے کہ عارف نقوی نے اربوں روپے خرچ کرکے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی سندھ میں پہنچوایا تھا۔ اس کے علاوہ نیپرا کے تمام افسران مع چیئرمین کے-الیکٹرک کے اعلیٰ افسران بھاری رقم مبینہ طور پر رشوت دے کر کے-الیکٹرک کو فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخوں میں بھاری بھر کم اضافہ پچھلی تاریخوں میں بڑھواتے ہیں کے-الیکٹرک کراچی کے مظلوم عوام سے اس ضمن میں کھربوں روپے وصول کر چکی ہے۔ کے-الیکٹرک کے تمام بڑے جنریٹنگ یونٹس صحیح طور پر کام نہیں کر رہے ہیں صرف نیشنل گرڈ اسٹیشن جام شورو (سندھ) اور کراچی کے چھوٹے صنعتی یونٹوں سے بجلی لے کر کراچی کے عوام کو سپلائی کر رہی ہے۔ نیب کراچی کے افسران نے راقم الحروف کو 2019ء میں کال اَپ نوٹس بھجوایا تھا جس کا تفصیلی جواب مع کے-الیکٹرک کی 2016ء کی بیلنس شیٹ جو چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور بورڈ آف ڈائرکٹرز سے منظور شدہ ہے ثبوت کے طور پر بھیجی تھی۔ نیب کراچی کے افسران نے تمام تحقیقات مکمل کرکے نیب کے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کو ریفرنس دائر کرنے کی منظوری کے لیے بھیجا تھا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر ریفرنس دائر نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف کے-الیکٹرک نے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر نیپرا میں درخواست دائر کی ہے۔ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں 3.38 روپے فی یونٹ کے-الیکٹرک کو بجلی کی مد میں اضافے کی درخواست منظور کرتے ہوئے سفارشات کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
اطہر من اللہ چیف جسٹس عدالت عالیہ اسلام آباد اور گلزار احمد چیف جسٹس عدالت عظمیٰ سے پر زور اپیل ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو کے-الیکٹرک میں بجلی کے نرخوں میں اضافے سے نہ صرف روکنے کا حکم جاری فرمائیں بلکہ چیئرمین نیب کو ہدایات جاری فرمائیں کہ وہ کے-الیکٹرک میں24 ارب روپے کے قرضے کی کرپشن کا ریفرنس احتساب عدالت اسلام آباد میں دائر کرکے ملزمان کو گرفتار کر کے سخت سزائیں دلوائیں۔