تجھے تو لوٹ لیا تیرے ہی باسیوں نے

728

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کو لوٹ رہے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ جس شاخ پر ہم سب بیٹھے ہیں اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں، لیکن یہ کتنا مضبوط ملک ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا۔ اور کبھی یہ بھی خیال دل میں آتا ہے کہ یہ کتنا مالدار ملک ہے کہ جس محکمے میں کرپشن کا کوئی کیس پکڑا جائے وہ کرپشن کروڑوں اور اربوں روپے سے کم کی نہیں ہوتی۔ ملک کو لوٹنے کے نئے نئے انداز ہیں، آج ہم سرکاری اداروں میں ان ملازمین کی بات کریں گے جو براہ راست کسی بدعنوانی میں تو مبتلا نہیں ہیں لیکن وہ اپنے اداروں سے جہاں وہ ملازم ہیں ہر ماہ اپنی تنخواہ کس طرح وصول کرتے ہیں کہ وہ دفتر بالکل نہیں جاتے اور ہر ماہ ان کی تنخواہ ان کے اکائونٹ میں آتی رہتی ہے ایسے ملازمین سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کی تنخواہ جائز اور حلال ہے۔ اس پر وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں ہم جب دفتر میں جاتے ہیں تو ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ناجائز آمدنی کا جو نٹ ورک دفتر میں بنا ہوا ہے آپ اس میں حصہ دار بن جائیں جب ہم اس سے انکار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اچھا آپ گھر پر آرام کریں آپ کو تنخواہ ملتی رہے گی۔
ہمارے ایک دوست نے ایک ایسے سرکاری ملازم کا بتایا کہ وہ ساری زندگی اپنے دفتر نہیں گئے تنخواہ ان کو ملتی رہی پھر وہ جب ریٹائر ہوئے تو پنشن کے معاملات کے سلسلے میں دفتر جانا پڑا تو لوگوں سے دفتر کا پتا پوچھ کر اپنے اس دفتر جانا ہوا جہاں وہ پچھلے پچیس برس سے ملازم تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دفتر جاتے تو ہیں لیکن ایسے جاتے ہیں کہ جیسے وہ دفتر آکر احسان کررہے ہوں بظاہر تو وہ کسی کرپشن
میں شامل نہیں ہیں لیکن اس ایمانداری کا فائدہ وہ اس طرح لیتے ہیں کہ اپنی مرضی سے جس وقت دل چاہا دفتر آگئے اور جب چاہا چلے گئے دفتری اوقات کی کوئی پابندی ان کے لیے ضروری نہیں اسی طرح وہ کام بھی شاہانہ انداز میں کرتے ہیں گو کہ کسی سائل کی فائل آگے بڑھانے کی کوئی قیمت یعنی رشوت نہیں لیتے اس لیے اپنے کام کی ترجیحات وہ خود طے کرتے ہیں چاہے متعلقہ سائل کو کتنی ہی اپنے کام کی جلدی ہو، پھر وہ سوچتا ہے کہ وہی لوگ بہتر ہیں جو رشوت کا پہیہ لگا کر فائل تو آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے بھی ایماندار سرکاری ملازم ہیں جو دو دو سرکاری ملازمت کرتے ہیں جہاں کچھ سختی ہوتی ہے تو وہاں پورا وقت یا زیادہ وقت دیتے ہیں جہاں پہلے سے ان کی چودھراہٹ قائم ہے وہاں اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں۔
1985سے پہلے تک تو صورتحال کچھ کم کم تھی لیکن جب سے ایم کیو ایم مقتدر حلقوں کی سرپرستی اور عوامی تائید سے اس شہر کے سیاہ سفید کی مالک بنی اس نے اس بیماری کا علاج کرنے کے بجائے اس بیماری کو اپنے پارٹی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ایم کیو ایم کی
دہشت گردی سے سرکاری افسران ہر وقت خوف کے سائے میں رہ کر کام کرتے تھے اور بالخصوص وہ افسران جو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتے تھے وہ اس تنظیم کے ہر حکم کی اطاعت کرتے نظر آتے۔ کراچی کے دوسرکاری ادارے مثلاً بلدیہ کراچی، کراچی واٹر بورڈ میں ایم کیو ایم کی تنظیمی سرگرمیاں بغیر کسی روک ٹوک کے چلتی تھیں بلدیہ اور واٹر بورڈ کے ملازمین ایک طرح ایم کیو ایم کے زبردستی کے کارکن تھے۔ ایم کیو ایم کا کہیں بھی کوئی جلسہ ہوتا یا ایسی کوئی سرگرمی ہوتی جس میں افرادی قوت کی ضرورت پڑتی تو ان اداروں کے ملازمین کو بسوں میں بھر بھر کے لے جایاجاتا پھر ان اداروں میں ایم کیو ایم اپنے جن کارکنوں کو ملازمت دلاتی تو وہ تنخواہ تو یہاں سے لیتے لیکن کام نائن زیرو پر کرتے یا کوئی اور تنظیمی خدمات ان سے لی جاتیں اکثر ایسے نوجوانوں کو جب ایک دن ملازمت کا تقرر نامہ دیا جاتا تو دوسرے دن ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا دی جاتی پھر تیسرے چوتھے دن انہیں کسی پرانے گروپ کے ساتھ کار میں بٹھا کر کہا جاتا کہ جائو فلاں جگہ پر فائرنگ کر کے آئو اب وہ بیچارہ لڑکا جس نے ساری زندگی کلاشنکوف کا نام ہی سنا تھا دیکھا تک نہیں تھا اب وہ اس کو چلانے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔
ایم کیو ایم ایسے نئے لڑکوں سے کوئی دہشت گردی کی کارروائی کروانا چاہتی تو پہلے ان کی ملازمت والی جگہ پر حاضری لگوائی جاتی پھر ان سے وارداتیں کروائی جاتیں اگر یہ پکڑے جاتے تو دفتر میں حاضری کا ریکارڈ دکھا کر ان کو مقدمے سے بچالیا جاتا اور اگر کسی کارکن کو کوئی جھٹکا دینا مقصود ہوتا تو تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروادیا جاتا، یہ وہ صورتحال ہے جو کراچی میں پچھلے تیس سال سے جاری و ساری تھی لیکن 2016 کے بعد اس میں کچھ کمی آئی ہے اب بلدیہ اور واٹر بورڈ میں گھوسٹ ملازمین کی چھان بین کرکے انہیں اداروں سے فارغ کیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومت اور وفاقی حکومتوں نے اس خلاف ضابطہ کام پر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی ایم کیو ایم کی دہشت گردی سے بڑے بڑے لوگ بھی پناہ مانگتے تھے۔
اب ایک اور اہم مسئلہ جس کی وجہ سے ہمارے خزانے پر اربوں روپوں کا بوجھ پڑرہا ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ملک کے معروف صحافی انصار عباسی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ ہمارے جج اور فوج کے جنرل جب ریٹائر ہوتے ہیں تو انہیں کسی جگہ دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھ لیا جاتا ہے اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سینئر حضرات دوران ملازمت ہی اپنے اثر رسوخ سے اپنی سیٹنگ کر لیتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ لاکھوں روپے تنخواہ پر ملازم ہوجاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاکھوں روپے پنشن الگ سے لے رہے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ایک صاحب کی مثال بھی دی گئی ہے کہ وہ کنٹریکٹ پر 24لاکھ روپے ماہلانہ تنخواہ لے رہے ہیں اور لاکھوں روپے پنشن بھی الگ سے لے رہے ہیں اس طرح قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑرہا ہے۔
12فروری کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے پر غور کیا گیا لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ اجلاس میں یہ کہا گیا یہ بڑا حساس موضوع ہے اس پر غور فی الحال ملتوی کردیا جائے یہ تجویز دی گئی تھی جو ریٹائرڈ ملازمین کنٹریکٹ پر ملازمت کریں ان کی پنشن ان کی ملازمت کی مدت تک روک لی جائے اور جب ان کا کنٹریکٹ ختم ہو جائے ان کی پنشن جاری کردی جائے لیکن کابینہ کے اجلاس میں اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ایسا لگتا ہے ان سینئر حضرات یعنی ججوں اور جنرلوں کے معاملات پر کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے بھی پر جلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔