آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

439

پچھلے دو تین دنوں سے ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں جن میں دل اندر سے بہت دکھ رہا ہے، ان میں کوئی نئی خبریں نہیں ہیں بلکہ وہی پرانی خبریں کچھ نئے انداز میں دل پر چوٹ مارنے والی ہیں۔ یہ خبریں ہولناک بھی ہیں، خوفناک بھی ہیں، تشویشناک اور غضبناک بھی ہیں۔ مثلاً براڈ شیٹ کی طرف سے پاکستان کو یہ دھمکی ملی ہے کہ اگر نیب نے ہماری بقیہ ادائیگی نہیں کی تو ہمارے پاس پاکستانی اثاثے ضبط کر لینے کا قانونی اختیار موجود ہے۔ نیب کے پہلے چیرمین جنرل امجد نے براڈ شیٹ سے ایسا ابہام سے بھرپور معاہدہ کیسے کرلیا کہ جس میں صرف پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم کی نشاندہی کرنے پر بیس فی صد کمیشن دیا جائے گا حالانکہ پوری دنیا میں یہ طریقہ کار ہے کہ ہمیشہ کمیشن رقم کی وصولیابی پر دیا جاتا ہے قسطوں میں سامان دینے والے جب اپنے نادہندگان سے اپنی پھنسی ہوئی رقم کی وصولیابی کے لیے جو کمیشن ایجنٹس رکھتے ہیں ان سے یہی طے ہوتا ہے کہ جو رقم آپ وصول کرکے لائیں گے اس پر کمیشن دیا جائے گا۔ بلکہ اس معاہدے میں جو سب سے زیادہ مضحکہ خیز نکتہ ہے وہ یہ کہ نیب اپنے ذرائع سے جن رقوم کا پتا لگائے گا اس پر بھی براڈشیٹ کو کمیشن دیا جائے گا۔ ایسے بے تکے اور نہ سمجھ میں آنے والے نکات دیکھ کر دل یہی کہتا ہے کہ ہمارے اپنے اندر ہی کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو اپنی ذاتی تجوری بھرنے کے لیے ملک کی دولت کو خود لوٹنے اور دوسروں سے لٹوانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کے ایک واقعے سے اس کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے۔ ایک صاحب اپنی بائیک پر جارہے تھے کہ پیچھے سے بائیک پر ایک لڑکے نے انہیں روکا اور پستول دکھا کر ان سے موبائل فون چھین کر بھاگ گیا وہ گم سم کھڑے تھے کہ اتنے میں ایک اور لڑکا ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ انکل کیا ہو گیا انہوں نے کہا کہ ایک لڑکا مجھ سے موبائل چھین کر بھاگ گیا اس نے پوچھا کدھر گیا ہے انہوں نے ایک طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ادھر گیا ہے اس لڑکے نے کہا کہ آج کل یہاں ایسی وارداتیں بہت ہو رہی ہیں آپ اس کو پہچان تو جائیں گے انہوں نے کہا کہ ہاں میں پہچان لوں گا وہ لڑکا ان کے ساتھ بیٹھ گیا ادھر آبادی میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوگا ان شاء اللہ میں آپ کا موبائل واپس دلوائوں گا وہ لڑکا ان کو آبادی کے اندر ایک تنگ اور تاریک گلی میں لے گیا اور پستول دکھا کر ان کے پاس جو رقم تھی وہ بھی لوٹ لی براڈشیٹ نے کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی کیا ہے، بہرحال یک رکنی تحقیقاتی کمیشن اس کی تحقیق کررہا ہے جو 45دن میں اپنی رپورٹ پیش کر دے گا۔ اس میں امید ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا، ایک سوال اب بھی ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ آیا وہ لوگ جو اس کے ذمے دار قرار پائیں گے جن کی وجہ سے ملک کو نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ ملک کی رسوائی الگ سے ہوئی ان کو کوئی قرار واقعی سزا مل سکے گی یا نہیں۔
دوسری تشویشناک خبر یہ ہے کہ لاہور میں اورنج ٹرین نے چلنا شروع کیا ہے اس کے بارے میں ایک باخبر صحافی بتارہے تھے کہ تین ماہ میں اورنج ٹرین کا بجلی کا بل 45کروڑ روپے آیا ہے جبکہ اس کی آمدنی صرف 25لاکھ روپے ہوئی ہے۔ اورنج ٹرین کا جب کام شروع ہوا تھا تو اس وقت ہی سے یہ تنقید کی زد میں رہی ہے کہ اس کی وجہ سے شہر کی پرانی عمارتیں جو ہمارا تاریخی سرمایہ تھیں اور جو ہماری تہذیبی ثقافت کا ورثہ تھیں، وہ توڑ دی گئیں لیکن چونکہ نواز شریف کو شیر شاہ سوری دوم بننے کا شوق تھا اس لیے انہوں نے پورے شہر کا حلیہ بگاڑ کر اپنی ضد پوری کی۔ معلوم نہیں کب تک یہ اورنج ٹرین نقصان میں چلتی رہیں گی اور اس کا خسارہ ہمیں ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہوگا۔ اسی طرح نواز شریف کے دور میں اسلام آباد ائر پورٹ کی تعمیر شروع ہوئی اس کا تخمینہ 37ارب روپے لگایا گیا لیکن جب اس ائر پورٹ کی تعمیر مکمل ہوئی تو پتا چلا کہ اس پر کل خرچ 127ارب روپے آیا ہے یعنی 90ارب روپے زائد خرچ ہوئے جس کا بوجھ ملک کے ٹیکس دہندگان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومتوں کے انہی اللے تللے اخراجات کی وجہ سے ہمارے ٹیکس نیٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہو پارہا ہے۔ بہر حال اس اضافی اخراجات کی نواز شریف کے حکم سے تحقیقات ہوئی تو جو اس کے ذمے داران قرار پائے ان کو یہ سزا دی گئی کہ ان کو گریڈ21سے گریڈ 19میں تنزلی کر دی گئی کہ جیسے نوے ارب کی نہیں بلکہ نوے ہزار کی کرپشن ہوئی ہو۔
افریقا کا ایک ملک نائیجریا ہے اس ملک میں فوجی انقلاب آیا جو فوجی جنرل حکومت میں آئے انہوں سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خود اس کرپشن کی دلدل میں اتر گئے ترقیاتی کام کے حوالے سے باہر کی کمپنیوں سے جو بھی معاہدے ہوتے ان کا کمیشن ان کے نام سے باہر بینکوں میں جمع ہوتا جاتا اس طرح کروڑوں ڈالرز ان کے نام پر بینکوں میں جمع ہو گئے، اتفاق سے 54سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں نائیجریا میں جو حکمران آئے وہ اپنی قوم کے ساتھ مخلص تھے انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے ملک کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے پر کام شروع کیا انہیں اس میں کامیابی ہوئی اور وہ بہت سی لوٹی ہوئی رقوم ملک میں واپس لانے میں کامیاب ہوگئے اب بھی اچھی خاصی رقوم باقی ہیں جس کے لیے کوششیں جاری ہیں ہماری حکومت کو نائیجریا سے کچھ سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنی رقوم واپس لے آئے، میرے خیال میں نائیجریا ایک عیسائی مملکت ہے اور کرپشن کے زیادہ تر رقوم عیسائی ملکوں ہی میں تھیں اس لیے ان کو آسانی سے ملک کی رقوم واپس مل گئیں چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیے اس کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک اور غیر مسلم ملک میں لوٹی ہوئی رقوم کی معلومات کے لیے ایک جدید طریقہ اپنایا کہ بڑے گھرانوں کے وہ لڑکے جن کے دوست احباب باہر کے ملکوں میں اور ان کے ہم عمر بھی ہیں وہ ان سے سوشل میڈیا پر گپ شپ کرتے ہیں جس میں وہ اپنے گھر میں دولت کی فراوانی کا دیگر آسائشات اور تعیشات کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے ہیں وہاں کی حکومت نے ایک ایسی APS بنائی ہے جس کی ریکارڈنگ اور معلومات متعلقہ ادارے کے پاس جمع ہوتی رہتی ہے اس مشق سے حکومت کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کون کون سے افسران ہیں جنہوں نے ناجائز دولت جمع کی ہوئی ہے، ان کے بچوں کی سوشل میڈیا پر آپس کی بات چیت ان کے خلاف ایک مضبوط ثبوت بن جاتا ہے۔ 10فروری کے روزنامہ جنگ میں معین نوازش کے آرٹیکل میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
روح فرسا خبریں تو اور بھی ہیں معروف صحافی ہارون الرشید کی اطلاع یہ کہ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے والا ہے اسرائیل کا خیال ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنالیا تو اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس حوالے سے امریکا اور اسرائیل دونوں متفق ہیں اگر امریکا اور ایران کے مذاکرات شروع ہو گئے تو یہ حملہ رک جائے گا۔ اور بھی موضوعات ہیں جس میں اوپن بیلٹ پر سینیٹ الیکشن، اس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ، کیا اس فیصلے سے صدارتی آرڈیننس غیر موثر ہو جائے گا، کیا دوسرا آرڈیننس آسکتا ہے ان تمام موضوعات پر بعد میں گفتگو ہو گی۔