امریکی سماج کی شکست وریخت(حصہ دوم)۔

433

۔6جنوری 2021 کو ایک ایسے وقت میں جب نومنتخب صدر بائیڈن کی انتخابی فتح کی توثیق کے لیے کیپٹل ہل میں امریکی کانگریس کا اجلاس ہورہا تھا، اچانک ایک ہجوم نے کیپٹل ہل پر حملہ کردیا، حملے سے پہلے اس ہجوم سے صدر ٹرمپ نے خطاب کر کے ان کے جذبات کو مشتعل کیا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے بائیڈن کی انتخابی جیت کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ بعض ریاستوں میں صدارتی انتخاب کے بارے میں دھاندلی اور جعل سازی کے الزامات لگائے تھے۔ الغرض مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ کی، ایک پولس مین اور ایک خاتون سمیت پانچ آدمی ہلاک ہوئے،کانگریس کے اراکین نے بھاگ کر یا میزوں کے نیچے لیٹ کر اپنی جان بچائی۔ اس کی بابت تحقیقات ہوئیں، سی این این کے تجزیہ نگارساراسینڈرز، اناماجا اور مارشل کوہن نے اب تک کی تحقیقات کا تجزیہ کیا ہے، اس تجزیے میں پنٹاگون ریکارڈ اور عدالتی کارروائی سے مدد لی گئی ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
’’امریکی دارالحکومت میں تشدد اور بغاوت کے الزام میں پہلے ایک سو پچاس گرفتارکیے جانے والے افراد میں معتد بہ تعداد امریکا کے موجودہ اور سابق فوجی اہلکاروں کی ہے۔ دستیاب تفصیلات کے مطابق 150گرفتار شدگان میں سے 21 افراد یعنی 14فی صد تعداد موجودہ یاسابق امریکی فوجی اہلکاروں کی ہے، جبکہ مردم شماری اور دفاعی شماریات کے اداروں کے مطابق 2018 میں امریکا کی کل آبادی 32کروڑ 70لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، ان میں سے حاضر سروس فوجی اہلکاروں کی تعداد تیرہ لاکھ جبکہ سابق فوجی اہلکاروں کی تعداد اٹھارہ ملین تھی، یعنی مسلّح افواج (مردوزن) کا تناسب کل آبادی کا 5.9فی صد ہے، جبکہ کیپٹل ہل پر حملے کے جرم میں ڈیڑھ سو گرفتار شدہ افراد میں فوجیوں کا تناسب 14فی صد ہے، یہ امریکا کے لیے ایک الارمنگ صورتِ حال ہے کہ ان کی افواج میں 14فی صد نسل پرست جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔
ان گرفتار شدگان میں دو آرمی اور دو نیشنل گارڈز کے افراد ہیں، سابق فوجیوں میں سے چھ سابق آرمی کے ارکان، آٹھ سابق میرین، دو نیوی اور ایک ائر فورس کے ہیں، ان کے سروس ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کم ازکم ایک ویتنام میں بھی خدمت انجام دے چکا ہے، باقی افراد افغانستان اور عراق کی جنگ میں شرکت کرچکے ہیں، ان میں سے ایک فوجی کو امریکی حکومت کی جانب سے ’’پرپل ہارٹ‘‘ کا تمغہ بھی دیا جاچکا ہے۔ انہیں مختلف قسم کے مناصب سے فارغ کردیا گیا تھا، ان میں آفیسر، ایک کیپٹن اور ایک لیفٹیننٹ کرنل بھی شامل ہے۔ کیپٹن ایملی رائنے، لیفٹیننٹ کرنل لیری رینڈل بروک جونیئر (ائر فورس ریٹائرڈ)، سابق فوجی اسٹیورٹ رہوڈز، سابق نیوی سیلر ایڈم نیوبولڈ شامل ہیں۔ ٹیکساس سے ائرفورس کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کو سینیٹ کے فلور پر ہیلمٹ اور زرہ پہنے تصویر بنوانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ سان ڈیاگو سے تعلق رکھنے والی ائر فورس کی ایک اور سابق فوجی کو جب وہ ہائوس چیمبر کے قریب رکاوٹیں عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی، کیپٹل پولیس آفیسر نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ ایک سابق نیوی اہلکار اور ورجینیا سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ایف بی آئی نے گرفتار کیا ہے۔ پنٹاگون نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ کتنے دوسرے حاضر سروس اہلکار زیر تفتیش ہیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر تشدد سے لے کر بغاوت کی سازش تک کے الزامات شامل ہیں، ان الزامات کے ثابت ہونے پر 20سال تک قید کی سزاہو سکتی ہے۔ 6جنوری کو حاضر سروس اور سابق فوجی اہلکاروں پر اپنے ملک کے خلاف اعلان ِ جنگ اور آئین پر حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا، ان میں سے کچھ فوجی گیئر اور اسلحہ سے لیس تھے۔ عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حاضر سروس فوجی اہلکار اور سابق فوجی دارالحکومت پر حملہ آور ہجوم میں شامل تھے۔
بعض سابق فوجیوں پر عائد الزامات کا تجزیہ کرتے ہوئے پراسیکیوٹر نے کہا: انہوں نے تشدد اور لاقانونیت کی قیادت کی، اس سے صدر جو بائیڈن کی انتخابی فتح کے تصدیقی عمل میں خلل پڑا۔ سابق فوجیوں اور انتہائی دائیں بازو کے نوجوانوں کی تنظیم FRPB کے درمیان مبینہ رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے، سی این این نے ایسے نو افراد کی نشاندہی کی ہے۔ گرفتار شدگان میں سب سے زیادہ معروف شخص جنگ میں حصہ لینے والا 37سالہ سابق فوجی جوزف رینڈل بِگز ہے، جو احتجاج کے دوران، پورٹ لینڈ، اوریگان سے لیکر واشنگٹن ڈی سی تک فاشزم مخالف تنظیم (Antifa) کے خلاف پرتشدد جھڑپوںکے لیے مشہور ہے، وہ پرجوش تقریروں اور بعض اوقات خواتین اور Antifa کے خلاف پرتشدد بیان بازی سے فار رائٹ کے آن لائن شخصیت بنے ہوئے ہیں۔ 2012 سے جائزہ لیں تو اس کے ٹویٹر اکائونٹ میں جنسی تشدد سے بھرپور کئی ٹویٹ موجود تھے، جس کے دستاویزی ثبوت Media Matter For America گروپ کے پاس موجود ہیں، ان میں جنسی تشدد کے حوالے سے گمراہ کن باتیں لکھی ہیں۔ بگز نے رونے کی آواز میں ٹویٹ کیا: ’’Antifa مردہ باد‘‘ اور دوسرے ٹویٹ میںاس نے کہا: ’’پورٹ لینڈ میں ریلی کے لیے بندوق اور گولہ بارود حاصل کرو‘‘، مسلسل قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر ٹویٹر نے اس کا اکائونٹ معطل کردیا تھا۔
6 جنوری کو بگز بیان بازی سے کہیں آگے چلا گیا، ایف بی آئی نے بگز کی اس تصویر کو اپنے حلف نامے میں استعمال کیا کہ وہ ایک کھلے دروازے سے 20سیکنڈ میں داخل ہوا۔ ایک وڈیو میں سی این این نے 6جنوری سے جائزہ لیا ہے جس میں بگز کو Proud Boys Troops کی قیادت کرتے ہوئے اور کیپٹل ہل پر حملے کی رہنمائی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ فیڈرل پراسیکیوٹر نے کہا: اس نے وفاقی املاک کی تباہی کی غرض سے دوسروںکی اعانت کی، ان کو مشورہ دیا اور برانگیختہ کیا تاکہ وہ غیر قانونی طور پر دارالحکومت میں داخل ہو جائیں، اس پر غیرقانونی داخلے، کیپٹل میں نامناسب برتائو اور کانگرس کی سرکاری کارروائی میں رکائوٹ ڈالنے کے الزامات ہیں، ایک فیڈرل ایجنٹ نے کہا: ’’بگز حملہ کرنے والے ہجوم میں پہلا شخص تھا جو کیپٹل میں داخل ہوا‘‘۔
بگز کے Proud Boys میں سے ایک ڈومینیک پزولا ہے، اس پر سازش کے الزامات ہیں، اسے ایک تصویر میں دیکھا کیپٹل ہل کی ایک کھڑکی کو توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک شخص گارشیا کو ایف بی آئی نے ایک وڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھایا: ’’ہم نے آگے بڑھ کر کیپٹل پر حملہ کیا ہے، اس نے حملہ آوروں کو روکنے والے پولیس کے سپاہی کو گالی دی اور غدار کہا، وہ ایک لاکھ ڈالر کے مچلکے پر ضمانت پر ہے۔ سابق مرین نکولس اپنے ایک سابق میرین دوست کے ساتھ کیپٹل حملے میں شریک تھا، وہ ایک وڈیو میں بیل کے سینگ کے ساتھ ایک بڑے ہجوم سے چیختے ہوئے کہتا ہے: ’’اگر آپ کے پاس ہتھیار ہیں تو آپ کو اپنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے، یہ انقلاب ہے، پرامن احتجاج نہیں ہے‘‘۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق شناخت کرنے والے ایک شخص نے کہا: ’’میرے پاس ان کے سوشل میڈیا سے ایک فوٹو اسکرین شاٹ ہے، الیکس کے بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کررہے تھے‘‘۔ اداروں کا بیان ہے کہ نکولس کے پاس مرچوں کا اسپرے، لوہے کے نوکدار اور مڑے ہوئے راڈ تھے، کیپٹل ہل کے داخلی راستوں کی طرف مرچوں کا اسپرے کرتا تھا جہاں حملہ آوروں کو روکنے کے لیے فیڈرل ایجنٹ کھڑے تھے۔ نکولس نے سابق میرین دوست ہارڈ ریکر کی تصویر شائع کی، اس نے لکھا تھا:
’’ہم اندر ہیں، دو لوگ پہلے ہی مرچکے ہیں، ہمیں اپنے ملک کے تمام محب وطن لوگوں کی ضرورت ہے، وہ اٹھیں اور ہماری آزادی کے لیے لڑیں، ورنہ ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا‘‘، اس نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’’ہمیں آزادی دو یا موت‘‘۔ ہارڈریکر اور نکولس پر سازش، خطرناک ہتھیاروں سمیت غیر قانونی داخلے، پرتشدد اقدامات، سول نافرمانی، وفاقی سرکاری افسروں پر خطرناک اسلحہ کے ساتھ حملے کا الزام عائد کیا گیا ہے، یہ دونوں ابھی تک جیل میں ہیں۔
پرپل ہارٹ تمغہ جیتنے والے جوشوالولر نے فیس بک پر پوسٹ کیا: ’’ہاں میں ٹھیک ہوں، آنسو گیس کا شکار ہوا، پولیس اہلکاروں کے ساتھ لڑا، جس کے متعلق میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا‘‘۔ جوشوا پر پُرتشد داخلے، قانون نافذ کرنے والے آفیسرز کے ساتھ نامناسب رویے اور وفاق کی جانب سے محفوظ فنکشن میں رکاوٹ ڈالنے سمیت کئی جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ عدالت نے بندوق، گیس ماسک اور جسم کو بچانے والا لباس لولر کے والد کے پاس محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ کے پی آر سی چینل کے مطابق زیادہ تر سابق فوجیوں پر سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سابق فوجی جیسیکا واٹکنز پر انتہا پسند تنظیم Far-Right کا حلف یافتہ ہونے کا الزام ہے، اس کے خلاف سابق میرین ڈونوون کرال اور نیوی کے سابق فوجی تھامس کالڈوِل کے ساتھ مل کر سازش تیار کرنے کا الزام ہے۔
دو پولیس آفیسر فسادیوں کے حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان میں سے ایک کا تعلق کیپٹل پولیس اور دوسرے کا میٹرو پولیٹن پولیس سے تھا۔ سی این این کے مطابق دو پائپ بم ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کے ہیڈ کوارٹر کے پاس ملے جو بغاوت سے ایک رات پہلے نصب کیے گئے تھے۔ تفتیشی اداروں کا کہنا ہے: یہ بم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ بٹانے کے لیے لگائے گئے تھے اور یہ منصوبے کا حصہ تھے تاکہ کیپٹل میں داخلہ آسان ہوجائے۔
سابق ایف بی آئی ایجنٹ مائیکل جرمن نے، جو سفید فام بالادستوں اور مقامی انتہا پسندوں کے درمیان خفیہ ایجنٹ کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے، فوج میں انتہا پسندی کے بارے میں کہا: ’’ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ فوج میں اس قسم کی نظریاتی انتہا پسندی موجود ہونے کی اجازت ہے، اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کما حقہ کوششیں نہیں ہوتی، نہ اس کی حقیقی تصویر کشی ہوتی ہے، ہمارے سیکورٹی فورسز میں غیر جمہوری تحریک ہماری سیکورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے، یہ خطرہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نسبت باہر زیادہ ہے، صرف سابق فوجی اور پولیس آفیسر تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں، بلکہ گزشتہ چار سال میں پورے ملک میں جتنے لوگ انتہاپسند انہ تشدد میں ملوث رہے، ان کی پشت پر منتخب سیاسی نمائندوںکا ہاتھ رہا ہے‘‘۔
یہ تفصیل ہم نے اس لیے پیش کی ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ جو ہمارے لیے امن وسلامتی اور اخلاقیات کے معلّم بنتے ہیں، ان کے معاشرے کو تو چھوڑیے، دفاعی اداروں میں کس ذہنیت کے نسل پرست، فاشسٹ اور جرائم پیشہ لوگ گھسے ہوئے ہیں، اقبال عظیم نے کہا تھا:

جب گھر کی آگ بجھی، تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا، جو آگ بجھانے آئے تھے