نیا سال اور چین بھارت کشیدگی کا مستقبل

520

چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کبھی ’’سب اچھا‘‘ نہیں رہا۔ گزشتہ دہائی کے اوائل میں بھارتی میڈیا ہی نے یہ خبریں شائع کرنا شروع کی تھیں کہ پیپلز لبریشن آرمی لداخ کے علاقے میں خاموشی اور سست روی کے ساتھ پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس کے بعد ہی بھارت نے ان علاقوں میں فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی پیدا کر دی اور چین نے بھی اپنی حکمت عملی کو نئے انداز سے ترتیب دینا شروع کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس تنازعے کو حل کرنے کا معاہدہ بھی ہوا مگر حالات میں سدھار نہ آسکا کیونکہ بھارت کی بے چینی کی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری تھی اور چین اپنے مستقبل کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے منصوبے کو ہر قیمت پر بھارت کی دست برد اور پہنچ سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ گزشتہ برس جون میں گلوان وادی میں ہونے والے تصادم نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ ایشیا میں کشمکش اور تصادم کی ایک نئی اور خطرناک فالٹ لائن فعال ہوچکی ہے اور یہ فالٹ لائن چین بھارت محاذ آرائی ہے۔ اس سے پہلے ایشیا میں کشیدگی کی ایک ہی وجہ منظر عام پر رہی ہے اور اس کا تعلق پاکستان اور بھارت کی مخاصمت سے ہے۔ گلوان وادی میں چینی فوج نے ایک گولی کا استعمال کیے بغیر نہ صرف چھ سو مربع میل کا علاقہ حاصل کر لیا بلکہ مکوں اور خار داروں راڈوں سے بھارت کے بیس فوجیوں کو ہلا ک کر دیا۔ اس واقعے پر بھارت کا وہ نیشنل ازم غائب ہوگیا جو پاکستان کے ہاتھوں کنٹرول لائن پر ایک فوجی کی ہلاکت سے اُبلنے لگتا ہے۔ ظاہر ہے یہ طاقت کے آگے گردن جھکانا اور نگاہ نیچی کرنا پنڈت چانکیہ کی فلاسفی کا اصول ہے اس لیے چین کے مقابلے میں صبر کا کڑوا گھونٹ پینے میں عافیت سمجھی گئی اور آج تک گلوان کے مرنے والے ان فوجیوں کا بدلہ نہیں لیا گیا۔
2020 خطے کو ایک سلگتا ہوا مسئلہ دے کر چلا گیا۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے چند ماہ میں مذاکرات کے آٹھ دور گزر چکے ہیں مگر سب بے نتیجہ رہے کیونکہ چین مئی سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی سے صاف انکار کر چکا ہے۔ دس سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر منفی 22ڈگری فارن ہائٹ پر یہ خطے کا ایک سیاچن گلیشیر ہے۔ جہاں فوجی پوزیشنوں سے تھوڑی سے دوری پر چینی ٹینک کھڑے ہیں۔ اسی دوران شنگھائی کانفرنس کی سائیڈ لائن میں بھارتی اور چینی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی نتیجہ خیز نہ بن سکی۔ بھارت سیاچن میں اپنے کردار کے باعث مکافات عمل کا شکار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے 1984 کی پوزیشن کی بحالی کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اس سے انکار کیا۔ اب بھارت وہی فرمائش چین سے کررہا ہے مگر چین اس مطالبے کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دے رہا۔ اس کی وجہ طاقت کی کارفرمائی اور اسے اصول بنانا ہے۔ طاقت جب اصول بن جاتا ہے تو پھر طاقت، طاقت ور اور طاقت ور ترین کے میعار اور پیمانوں پر فیصلے ہوتے ہیں۔ چین کی فوجی برتری کے پیش نظر بھارتی فوج لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی کو تصادم میں بدلنے سے گریزاں ہے مگر وہ اس کا بدلہ چین کو اقتصادی اور سفارتی نقصان پہنچا کر لینے کی راہ پر گامزن ہے۔ چینی مصنوعات کے لیے اپنی منڈیوں میں جگہ تنگ کرنا چینی سوشل میڈیا ایپس کی بندش، چینی کمپنیوں کو خریدار کے مختلف منصوبوں سے دور رکھنا اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آزاد تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب اقدامات اکارت ہوگئے ہیں اور چینی معیشت بلندیوں کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے برعکس بھارت کو 2020 میں جنوبی ایشیا کی بدترین کارکردگی کی حامل معیشت کا نام دیا گیا ہے۔
یوں گزشتہ برس دنیا کو چین بھارت تنازعے کی صورت میں ایک اور رستا ہوا زخم دے گیا۔ 2021 میں اس تنازعے کی کیا شکل وصورت اُبھرے گی اب یہ سوال اہم ہے۔ اس سال بھی بھارت چین کو دھکیل کر علاقہ خالی نہیں کراسکتا سوائے اس کے کہ وہ چین کو مزید پیش قدمی سے روکے رکھے۔ شاید چین کی فوج اب مزید پیش قدمی میں دلچسپی بھی نہ لے کیونکہ انہوں نے سی پیک کو محفوظ بنانے کے لیے جس قدر پیش قدمی کرنا تھی وہ گلوان وادی میں کی جا چکی ہے۔ ہمالیہ کے بلند وبالا برف زاروں پر بیٹھنے کی قیمت دونوں ملکوں کو چکانا ہے۔ بھارت پہلے ہی سیاچن میں یہ قیمت دہائیوں سے ادا کر رہا ہے۔ چین کے لیے یہ محاذ قطعی نیا ہے مگر یہاں وہ پاکستان کے سیاچن کے تجربات سے استفادہ کرتا رہے گا۔ بھارت اس تنازعے سے جلد ازجلد جان چھڑانا چاہتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ کمبل اب اس کے وجود سے لپٹ کر رہ گیا ہے۔ خطے کی جغرافیائی ہیئت موسموں کی شدت کے باعث اس مقام پر فوجی توانائی ضائع ہونے کا احساس بھارت کو مسئلہ حل کرنے پرمجبور کررہا ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ بھارت اس مسئلے کو اپنی شرائط پر حل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا واسطہ اپنے سے بڑی طاقت چین سے ہے۔ 29دسمبر 2020 کو بھارتی نیول چیف پی کے ایس بھداوریہ نے اسی حقیقت کا اعتراف یوں کیا تھا کہ انڈیا چین تنازعے کا جاری رہنا عالمی سطح پر چین کے حق میں نہیں مگر اس تنازع کا جاری رہنا بھارت کے قومی مفاد میں بھی نہیں۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکا چین کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتا مگر وہ مودی کی قیادت میں بھارت کو ہندو ازم کی جانب تیزی سے لڑھکتا بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امریکا کی ضرورتیں بھی اسے بھارت کی کھلی حمایت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ماضی کے آٹھ ادوار کی طرح چین بھارت مذاکرات کے درمیان بات چیت کے مزید دور بھی بے ثمر رہیں گے اور مودی حکومت اس سال لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے اپنے عوام کی نظریں ہٹانے کے لیے کورونا ویکسین کا مسئلہ گرم کرسکتی ہے۔ گویا رواں برس چین کے پیش قدمی کے ساتھ جینے کی ریہرسل کرتے گزرے گا۔