عالمی سیاست کا کراس فائر

755

عالمی سیاست کے کھلاڑیوں کے درمیان دنیا کی تشکیل جدید اور اپنے اثر رسوخ کی وسعت اور بحالی کے لیے ایک معرکہ جاری ہے اور پاکستان برسوں سے اسی کراس فائر کی زد میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ جس کا تازہ ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کو دہشت گردی کے ایک واقعے میں نہایت بے دردی سے شہید گیا گیا۔ داعش کی طرف سے واقعے کی ذمے داری قبول کرنے سے پہلے ہی اس واقعے کا نقش قدم افغانستان میں منظم اور مجتمع ہونے والی سفاک تنظیم داعش کی طرف جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ داعش ہو یا ٹی ٹی پی سمیت کوئی بھی مسلح گروہ ان کی کارروائیاں پاکستان کو یا تو عملی طور پر عدم استحکام کا شکار کرتی ہیں یا پھر اس ملک کا بین الاقوامی امیج متاثر کرکے اسے معاشی نقصان سے دوچار کرتی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائی کس بینر تلے اور کس نام سے ہوتی ہے یہ سوال اہم نہیں اصل سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کہاں پناہ حاصل کرتے ہیں؟ کون سی زمین اور راستہ استعمال کرتے ہیں؟ وہاں ان کی میزبانی کون کرتا ہے؟ دہشت گردی کی واردات کے بعد ڈھول تاشے کہاں بجتے سنائی دیتے ہیں؟۔ ان سارے سوالوں کا جواب تلاش کریں تو ڈور کا سرا ایک ہی سمت میں ایک ہی کردار کی طرف ملتا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی ہر کارروائی کی سرپرستی بھارت کرتا ہے اور اس کے لیے بیس کیمپ کے طور پر افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانی خام مال کی افغانستان کے جنگ زدہ علاقوں میں کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ بیس کیمپ کی اس سہولت سے محرومی کا خوف ہے کہ بھارت افغانستان کے امن سے خوف کھاتا ہے۔
پاکستان نے چار دہائیوں سے حاصل ہونے والے سبق سے یہ جان لیا ہے کہ افغانستان میں بدامنی کے شعلے جلد یا بدیر پاکستان کے دامن میں جا بھڑکتے ہیں۔ وہاں جنگ چھڑتی ہے تو بے خانماں اور جنگ سے متاثرہ قافلے پناہ کی تلاش میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ جب بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بے شمار قباحتیں بھی چلی آتی ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدو درکھا جاتا ہے۔ یوں افغانستان میں برسوں کی شورش کے مضر اثرات کا سامنا کرنے کے بعد پاکستان کے لیے سب بہترین آپشن افغانستان میں امن ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں امن کی جس قدر ضرورت ہے پاکستان کو سبق سکھانے اور غیر مستحکم کرنے اور رکھنے کے بھارت کے لیے افغانستان کو امن کی منزل سے دور رکھنا ناگزیر بن کر رہ گیا ہے۔ اسی لیے جوں جوں طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کی طرف پیش رفت ہوتی گئی بھارت میں صف ِ ماتم بچھتی چلی گئی۔ ان کا احساس تھا کہ پاکستان نے طالبان اور امریکا کو روبرو کھڑا کرکے بھارت کو افغانستان سے نکال باہر کیا ہے۔ اسی احساس کے تحت بھارت نے افغانستان میں طالبان امریکا سمجھوتے کے مخالف عناصر کو منظم کرنا اور انہیں زبان عطا کرنا شروع کی۔ یہاں تک اب
وہ بڑی حد تک اپنی صلاحیتیں اور وسائل دوبار ہ مجتمع کرچکے ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی طے شدہ پالیسی ہے۔ کابل میں ایک منظم اور ملک کے طول وعرض پر یکساں کنٹرول رکھنے والی حکومت ہوگی تو پاکستان دہشت گردی کی کارروائیاں پر احتجاج کرے تو اس کا اپنا وزن ہو سکتاہے۔ ایک جنگ زدہ اور منقسم ملک اور وار لارڈز میں بٹے ہوئے ملک میں ہر کارروائی کی ذمے داری حکومت پر عائد نہیں کی جا سکتی یا حکومت اپنی محدود عملداری کو عذر کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں یہی ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں ہزار ہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کو نشانہ بنانے کی کارروائی داعش طرز کی ہے کیونکہ یہ گروہ ہی فرقہ وارانہ انداز سے اپنا نقش قائم کرتا ہے مگر داعش کا سرپرست کون ہے؟ کس نے مشرق وسطیٰ کا حلیہ بگاڑنے کے لیے پہلے القاعدہ اور پھر داعش کا نام استعمال کیا یہ بھی کوئی راز نہیں۔ حامد کرزئی نے خود ایک بار کہا تھا کہ داعش کے لوگوں کو امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے۔ ہیلی کاپٹروں کی یہ سفری سہولت یوں بے سبب نہیں بلکہ یہ داعش کے کسی مخصوص طاقت یا چند طاقتوں کے ’’تزویراتی اثاثہ‘‘ ہونے کی نشانی ہے۔ بلوچستان میں اس کارروائی کے بعد بھارت کے ایک اخبار اور تجزیہ نگار کی خوشی چھپائے نہ چھپ سکی اور ایک سرخی کی صورت یوں چھلک پڑی کہ ’’بلوچستان جنوبی ایشیا میں کشمیر سے زیادہ خطرناک علاقہ بن گیا ہے‘‘۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے ایک اخبار نے گوادر بندرگاہ کی ایک تصویر اس عنوان کے تحت دکھائی کہ ’’سی پیک رکاٹوں کا شکار ہو چکا ہے‘‘۔ یوں پاک چین اقتصادی راہداری بیک وقت کئی عالمی اور علاقائی طاقتوں کا ہدف بن چکی ہے۔ بھارت اس خوفناک کھیل میں کئی طاقتوں کا مہرہ بن چکا ہے۔
سی پیک کے مخالف ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ وسائل کوئی فراہم کرتا ہے تو لاجسٹک مدد کوئی اور فراہم کرتا ہے خام مال اور ذہن سازی کی ذمے داری کسی کی ہے تو پروپیگنڈے کا محاذ کسی دوسرے کے حوالے ہے۔ اس خونیں لڑی کا مقصد سی پیک کو اس قدر ناکام اور گراں مایہ بنانا ہے کہ پاکستان اس سے دست بردار ہوجائے اور چین کے پاس بھی پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ یہ شاید وقت کے دھارے کو واپس لانے کی سعیِ لاحاصل ہے کیونکہ چین اپنے عالمی مقاصد میں جس قدر آگے بڑھ گیا ہے اسے ریورس گیئر لگانا اب آسان نہیں رہا۔ سی پیک کی رفتار کم یا زیادہ ہوتی رہے گی مگر یہ منصوبہ زمین سے دوبارہ کاغذوں میں سمٹ جائے گا اس بات کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہونے کی قیمت چکا رہا ہے اور حقیقت میں پاکستان کو موجودہ سماجی اور جغرافیائی ڈھانچے کے ساتھ بحال رکھنا ہے توچین کے ساتھ کھڑا ہونے کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں۔ دوسری طرف گریٹر انڈیا کا تصور منہ کھولے کھڑا ہے جس کے خیال میں تاریخ کے گھائو بھرنے کا یہی واحد طریقہ کہ یا تو پاکستان کی موجود شکل کو بگاڑ دیا جائے نہیں تو اس کا سول اسٹرکچر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ یہ خطے میں سر اُٹھا کر چلنے کی ادا ہی بھول جائے کیونکہ جب یہ سر اُٹھا کر چلے گا تو اس کے نفسیاتی اثرات بھارت کے اندر بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔