گردشِ ماہ وسال کا فسانہ

896

۔2020 کا سال اختتام کو پہنچ گیا اور اس سال کے سورج کے غروب سے 2021 کے نئے اور تازہ دم سورج کا جنم ہوا ہے۔ حقیقت میں وقت کا دھارا ایک تسلسل اور منظم اور معین رفتار سے بہتا چلا جاتا ہے۔ بس انسانوں نے اپنی سہولت اور معمولات زندگی چلانے کے لیے وقت کو ماہ وسال کی زنجیروں میں جکڑ کر شناخت دی ہے۔ زمانے کا بہائو کائنات کی ابدی سچائی اور حقیقت ہے۔ اسی کو یوں بیان کیا گیا ہے ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ زمانہ اپنی چال چلتا چلا جاتا ہے اور انسان اس کلینڈر پر اس کے قدم گنتا رہ جاتا ہے۔ 2020 میں کرۂ ارض میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ جنگیں جاری ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور معاشی اور فوجی برتری کے لیے پراکسی جنگوں اور سازشی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دنیا میں جو ملک اور خطے مدتوں سے لہو میں نہائے ہیں ان کا مقدر بدلنے نہ پایا ان کے زخموں سے بدستور خون رستا رہا۔ انسانیت کو جو چیلنجز ہمیشہ سے درپیش ہیں ان کی سنگینی کم ہونے کے بجائے اور گہری ہوگئی۔ وسائل کے لیے چھینا جھپٹی اور جتھے بندی کا عمل عالمی سطح پر بھی جاری رہا۔ عالمی سطح پر امریکا نے اپنی پالیسیوں کا محور چین کا گھیرائو رکھا اور اس مجنونانہ شوق نے کرۂ ارض کو نئے عارضوں اور دکھوں کی سوغات اور داغ دیے۔ چین جو کچھ ہے وہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ دنیا کے بازاروں اور منڈیوں میں چین دندناتا پھر رہا ہے۔ اس دیو کو قابو کرنے کا طریقہ صحت مند مسابقت ہے اور امریکا شاید اس راستے سے مایوس ہو کر اب چین کو ’’محدود‘‘ رکھنے کے واحد آپشن کا قائل ہو چکا ہے۔ آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے ساتھ مل کر ایک اتحاد تشکیل دے کر امریکا چین کی اقتصادی پیش قدمی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ پاکستان چونکہ اس کھیل میں حددرجہ اہم ہے اس لیے اس کشمکش کی زد پاکستان پر آن پڑی ہے اور امریکا اور چین کی مخاصمت کا اچھا خاصا ملبہ پاکستان پر بھی گرتا ہے۔ یہ سلسلہ اس بار بھی جاری رہا۔
سال تو بدل گیا مگر کشمیری اور فلسطینی عوام کا حال نہ بدل سکا۔ جنگ زدہ دوسرے علاقوں کے مقدر کا ستارہ بھی گردش میں رہا۔ بیتا ہوا سال جاتے جاتے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مجہول الحواس امریکی حکمران کو بھی ساتھ لے گیا۔ ٹرمپ نے اپنی شناخت ایک غیر محتاط اور جنگجو شخص کے طور پر قائم کی تھی اور یہ شناخت امریکا کے ایک بڑے طبقے کو بھی قبول نہیں تھی۔ اس لیے موقع ملتے ہی امریکا کے ووٹروں نے ٹرمپ کو ’’ایگزٹ‘‘ کہہ دیا اور اب وہ وائٹ ہائوس کے صدر دروازے سے باہر نکلنے کو تیار ہیں۔ اس تبدیلی کے اثرات جہاں امریکا کی سیاست پر مرتب ہوں گے وہیں عالمی سیاست میں ایک تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ یہ تبدیلی پاکستان کے حوالے سے کس نوعیت اور کن اثرات کی حامل ہوگی اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت میں ہوگا مگر امریکا ایک بوجھ سے آزاد ہو کر رہ گیا ہے۔
بیتے ہوئے سال کی سب سے خاص بات کورونا کی آمد، وسعت اور اس کے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات تھے۔ انسانوں کی موجودہ نسل تو کیا تاریخ انسانی نے بھی ان حالات کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ چین کے ایک غیر معروف شہر ووہان میں ایک پراسرار وبا پھیل گئی اور کہا گیا کہ یہ کورونا وائرس ہے۔ یکایک یہ وبا چین کی حدود سے نکلی اور طوفان بن کر ملکوں ملکوں پھیلتی چلی گئی۔ راکٹ کی رفتار سے دوڑنے والی انسانی زندگی کو گویا کہ پہلے مرحلے پر ہی بریک سی لگ گئی۔ وائرس کا اتاپتا پوری طرح کسی کو معلوم تھا نہ اس کا شجرہ نسب معلوم تھا اس گمنامی نے انسانیت کے خوف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وائرس نمودار ہوکر پھیل گیا تو دنیا بھر کے سائنس دان اپنے اپنے ملکوں میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ بازاروں کی ساری رونقیں سائنسی تجربہ گاہوں میں منتقل ہوگئیں اور دنیا کی نظریں ان لیبارٹریوں پر مرکوز ہوکر رہ گئیں۔ لاک ڈائون کی اصطلاح پورے سیاق وسباق کے ساتھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے آئی۔ شہر ویران ہوگئے، پررونق مقامات پر اُداسی بال کھولے روتی رہی۔ سیر گاہوں نے دشت کا روپ دھار لیا۔ دنیا رنگوں اور روشنیوں کو ترسنے لگی۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ پہلے گھروں سے باہر جانا زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے ضروری تھا کورونا نے گھروں کے اندر رہنے کو زندگی کے لیے ضروری بنادیا۔ اس وبا کے باعث انسانی زندگی کے سارے میعار ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ سماجی فاصلوں کو ایک اصول کے طور پر اپنایا گیا۔ کورونا کا زور ٹوٹنے کے بعد اب انسانیت نے اس وبا کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ وبا کو دوسری بیماریوں کی طرح ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا اور فقط احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہوگا۔ کورونا کے باعث سال رفتہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بیتے ہوئے سال کی رخصتی کے ساتھ نئے سال کے نئے چیلنجز کیا ہوں گے یہ تو کسی کو علم نہیں مگر نئے سال بھی پرانے چیلنجز انسانیت کو درپیش رہیں گے اور امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کورونا کے دھبے دھلنے کا سال ہوگا۔