نصف صدی قبل: ملکی تاریخ کے اہم واقعات

625

نصف صدی قبل یعنی جنوری 1971 کا مہینہ ملک کی تاریخ کا بہت نازک اور تلاطم خیز مہینہ تھا، ایک ماہ قبل یعنی دسمبر 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ جن میں قومی اسمبلی کی تین سو نشستوں میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160نشستیں عوامی لیگ نے جیت لی تھیں جبکہ مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 138 میں سے 81 نشستوں پر پاکستان پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ طاقت کے نشے میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو دونوں ہی مست ہورہے تھے۔
3جنوری 1970 کو ڈھاکا میں عوامی لیگ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے چارسو سترہ (417) ارکان کو جمع کیا اور ان سے سرِ عام رسوائے زمانہ چھ (6) نکات سے وفاداری کا حلف لیا۔ ان چھ نکات پر عملدرآمد کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو نیم خودمختاری مل جاتی اور فیڈریشن کا عمل دخل کم سے کم رہ جاتا۔ اس کے اگلے روز ہی ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ نے اپنا تیس واں یوم تاسیس منایا اور ایک بھرپور جلسے کا بھی اہتمام کیا جس میں بہت جوشیلی اور باغیانہ تقریریں کی گئی تھیں۔
حکومت کو مشرقی پاکستان میں حالات کی خرابی کا اندازہ تھا، اس لیے اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں 12؍جنوری 1971 کو خود ڈھاکا تشریف لے گئے اور پہلی بار شیخ مجیب کے چھ نکات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی حالانکہ شیخ مجیب نے اس موقع پر چھ نکات پیش نہیں کیے تھے بلکہ پانچ سال قبل فروری 1966 میں لاہور میں نیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پہلی بار اپنے چھ نکات پیش کیے تھے اور 1970 کے انتخابات سے قبل بھی اور انتخابی مہم کے دوران وہ اور عوامی لیگ کے دیگر رہنما اسے بار بار دوہراتے رہے تھے۔
ڈھاکا کے ایوان صدر میں اس اجلاس میں شیخ مجیب اور اس کے نصف درجن رفقاء کو طلب کیا گیا تھا۔ جنرل یحییٰ، جنرل پیرزادہ اور ایڈمرل احسن میز کے ایک جانب بیٹھے اور شیخ مجیب، خوندکر مشتاق، تاج الدین اور اس کے دیگر ساتھی میز کے دوسری جانب۔ آخر میں جنرل یحییٰ نے ایک عجیب بات کہی کہ میرے لیے آپ کے چھ نکات قابل قبول ہیں، مگر مغربی پاکستان میں ان کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے، آپ کو چاہیے کہ وہاں کے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ اس پر شیخ مجیب نے فوراً کہا کہ بے شک! بے شک! ہم مغربی پاکستان کو ساتھ لے کرچلیں گے۔ ہم ان سے مشورہ کریں گے ہم دستور بنائیں گے ہم چھ نکات کو اس دستور کی اساس بنائیں گے۔ ہم اس دستور کی ایک نقل آپ کو بھی دکھائیں گے۔ آپ فکر نہ کریں اس میں کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔
اس باقاعدہ اجلاس کے علاوہ بھی جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب الرحمن کی ملاقات ہوئی جس کا احوال پروفیسر جی ڈبلیو چودھری کی کتاب Last Days of United Pakistan میں ملتا ہے۔ وہ مرکزی وزیر مواصات تھے اور جنرل یحییٰ خاں کے ساتھ ڈھاکا گئے تھے۔ ان کے مطابق اس ملاقات کے بعد جنرل یحییٰ بہت افسردہ تھے، انہوں نے ملاقات ختم ہوتے ہی جی ڈبلیو چودھری کو ایوانِ صدر بلوایا اور کہا کہ مجیب نے مجھ سے بدعہدی کی ہے۔ جو لوگ مجھے اس سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے تھے، وہ سچے تھے۔ میں نے اس شخص پر اعتماد کرکے غلطی کی، چودھری صاحب نے ان سے خاص طور پر پوچھا کہ آپ نے مجیب کو اس کا وہ وعدہ یاد نہیں دلایا جو اس نے انتخابات سے قبل آپ سے کیا تھا۔ اس کا جواب دیتے وقت جنرل یحییٰ کے لہجے میں دردمندی تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے گلے میں پھانس اٹک رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اور آپ سیاستدان نہیں ہیں۔
جنرل یحییٰ خاں اسی ذہنی تلاطم میں 14؍جنوری کو ڈھاکا سے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل ائرپورٹ پر صحافیوں نے انہیں گھیر لیا۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ مستقبل کے فیصلوں کا انحصار شیخ مجیب کے فیصلوں پر ہے۔ بلکہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان (مجیب) سے پوچھو، وہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہیں۔ جب وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو میں یہاں نہیں ہوں گا۔ (روزنامہ ڈان، کراچی)
کراچی واپسی کے بعد جنرل یحییٰ لاڑکانہ گئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے مہمان بنے۔ اس پر ڈھاکا میں عوامی لیگ نے یہ تاثر پھیلانا شروع کیا کہ لاڑکانہ میں سازش کی جارہی ہے۔ ان ہی دنوں ڈھاکا کے اخبارات میں صفحہ اول پر ایک تصویر شائع ہوئی جس میں جنرل یحییٰ اور بھٹو کو المرتضیٰ کے وسیع اور خوبصورت سبزہ زار میں چہل قدمی کرتے دکھایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں مزید بدگمانی پھیلی۔ اس حوالے سے بھٹو صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’گریٹ ٹریجڈی (عظیم المیہ)‘‘ کے صفحہ 20پر لکھا کہ ’’صدر نے مجیب سے اپنی گفتگو کے بارے میں مجھے آگاہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے مجیب سے کہہ دیا ہے کہ اس کے سامنے تین راستے ہیں، اول یہ کہ وہ تنہا اپنی مرضی سے چلے۔ دوم یہ کہ پیپلز پارٹی سے تعاون کرے۔ سوم یہ کہ وہ پیپلز پارٹی کو نظر انداز کرکے مغر بی پاکستان کی چھوٹی چھوٹی شکست خوردہ پارٹیوں کی حمایت حاصل کرے۔ (بھٹو صاحب نے اپنے بارے میں لکھا کہ) ہم نے انہیں یقین دلایا کہ ہم کوئی قابل عمل راستہ نکالنے کی پوری کوشش کریں گے اور عنقریب ڈھاکا جاکر عوامی لیگ سے بات چیت کریں گے۔
اس کے چند روز بعد ہی بھٹو صاحب اپنے ساتھیوں سمیت ڈھاکا گئے اور پہلے شیخ مجیب سے ملاقات کی اور پھر دونوں جماعتوں کے آئینی ماہرین کے درمیان بات چیت ہوئی۔ عوامی لیگ کے ایک ترجمان رحمن سبحان کے مطابق بات چیت کے دوران یہ امر واضح ہوا کہ پیپلزپارٹی نے اس وقت تک کوئی دستوری خاکہ تیار نہیں کیا تھا۔ اس صورتحال میں مذاکرات کا جاری رہنا لاحاصل تھا۔ (ساؤتھ ایشین ریویو، لندن، شمارہ جولائی 1971)۔
وہ روداد مذاکرات کے چھ ماہ بعد منظر عام پر آئی تھی۔ مگر عوامی لیگ کے ذرائع سے فوری طور پر یہ تبصرہ سامنے آیا کہ بھٹو صاحب نے دستوری مسائل میںکوئی دلچسپی نہیں لی۔ وہ تمام وقت اقتدار میں شرکت اور قلمدانوں کی تقسیم پر بات کرتے رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے پیش نظر اقتدار کے سوا کسی با ت کی اہمیت نہ تھی۔
پروفیسر جی ڈبلیو چودھری اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’مسٹر بھٹو اپنے ساتھیوں سمیت 27جنوری کو ڈھاکا پہنچے۔ میں بھی مذاکرات کے جائزے کے لیے ڈھاکا میں موجود تھا۔ بات چیت تین روز جاری رہی مگر عدم اعتماد کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ مجیب نے بھٹو سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم چھ نکات میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کریں گے۔ اس پر بھٹو صاحب نے اتنی ہی صفائی سے بتا دیا تھا کہ ہم علٰیحدگی کی اس درپردہ اسکیم کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ اسی شام یعنی 29جنوری کو رات آٹھ بجے کی خبروں میں ریڈیو پاکستان نے بھٹو صاحب کا بیان نشر کیا کہ میں اپنی پارٹی اور مغربی پاکستان کے لیڈروں سے مزید مشورہ کروں گا اور عوامی لیگ سے مذکرات جاری رہیں گے۔
ڈھاکا میں مسٹر بھٹو کی آمد پر جتنی امیدیں بندھی تھیں، 30جنوری کو ان کی روانگی کے بعد نہ صرف ختم ہوگئیں بلکہ دونوں صوبوں کے بعد خلیج پہلے سے زیادہ وسیع ہوگئی بلکہ اسے وسیع کرنے میں بھارت نے اہم کردار اد ا کیا بظاہر دو کشمیری نوجوان 30جنوری کو بھارت کا ایک فوکر طیارہ اغواء کرکے لاہور لے آئے۔ بعد میں ہونے والی عدالتی تحقیقات سے معلوم ہو ا کہ وہ بھارت کی گہری سازش تھی اُس نے طیارے کے اغواء کے واقعے کو بہانہ بنا کربھارت کے اوپر سے گزرنے والی قومی ائرلائن کی پروازوں پر پابندی لگادی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں صوبوں کے درمیان جو فاصلہ پہلے دو گھنٹے میں طے ہوتا تھا، پابندی کے بعد سری لنکاکے راستے آنے جانے والی پروازوں کو چھ گھنٹے صرف ہونے لگے۔