میری کتاب بیتی

957

کتاب میری زندگی ہے، مجھے کتاب سے شدید محبت ہے، کتاب تھامنے کے بعد اسے مکمل کیے بغیر نیند نہیں آتی ایک زمانہ تھا کہ میں اور میری کتاب اور کچھ نہیں۔ نہ کھانے کا ہوش اور نہ پینے کا۔ اُس زمانے میں مَیں نے سب کچھ پڑھ ڈالا، ابن صفی کے ناولوں سے لے کر ارسطو کے فلسفے تک۔ کمیونسٹ لٹریچر سے لے کر سید مودودی ؒ کی کتب اور سیرت رسول سے لے کر دینی لٹریچر۔ میں نے اپنی جوانی کے بارہ تیرہ سال میں ساڑھے چارہزار کے قریب کتابوں کا مطالعہ کیا۔
وہ کہہ رہی تھیں اور میں سن رہا تھا، وہ بولتی رہیں اور میں سنتا گیا، سنتا گیا۔ اور میں ہی کیا، وہاں موجود تمام حاضرین ہی سن رہے تھے۔ ان کی باتیں اتنی دلچسپ تھیں کہ ہال میں بالکل سکوت طاری تھا۔ صرف وہ بول رہی تھیں، یعنی معروف تاریخ دان، مصنف اور معلم پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ تعمیری ادب کے لیے کام کرنے والے شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں کی ملک گیر تنظیم دائرۂ علم وادب پاکستان نے کراچی میں میری کتاب بیتی کے نام سے ان کے لیکچر کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ہمیں اور حیرت میں ڈال دیا کہ وہ تمام گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ شوقِ مطالعہ بھی پورا کرتی رہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
وہ کہہ رہی تھیں: میں اس وقت سے مطالعہ کررہی ہوں، جب مجھے پڑھنا بھی نہیں آتا تھا۔ تین سال کی عمر میں کتاب ہاتھ میں لے کر اس پر انگلی پھیرتی اور زبان سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتی رہتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والدین کو مطالعہ کرتے دیکھا وہ بہت شوق سے کتابیں پڑھتے تھے۔ اس لیے مجھے بھی بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق پیدا ہوگیا۔ دراصل مطالعہ کا شوق تو بچپن ہی سے پیدا کیا جاتا ہے۔ جب میں یونیورسٹی پہنچی تو اسلامی تاریخ کے شعبے میں داخلہ لیا، تب سے میرا مطالعہ میرے مضمون تک محدود ہوگیا۔ وہ بہت دیر تک بولتی رہیں اور میں سوچنے لگا کہ موجودہ دور میں مطالعہ کا رجحان کم تو ہوا ہے، مگر ختم نہیں ہوا۔ مطالعے کے شوقین بہت لوگ ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کتاب کو اپنی زندگی بنالیا، کتاب سے محبت ضائع نہیں ہوتی۔ اگر یہ درست سمت میں ہو تو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے اسے اپنا مقصدِ حیات معلوم ہوجاتا ہے۔ وہ پھاؤڑا اور کدال ہاتھ میں لے کر نکلتا ہے اور اپنی شخصیت اور کردار سے جنگل اور خود رو جھاڑیوں کو کاٹ کر زمین ہموار کرتا ہے اور پھر اس میں خوبصورت اور خوشبو دار پھول اور سایہ دار درخت اُگاتا ہے۔ مجھے مسلمانوں کے عروج کے دور کے بغداد، دمشق اور غرناطہ کے کتب خانے یاد آگئے جہاں علم کے پیاسوں کا ہجوم رہتا تھا۔ جہاں علم دوست حکومت دوسرے علاقوں سے آنے والے علم کے متلاشی لوگوں کے قیام و طعام کا بندوبست کرتی تھی۔ وہ کتب خانوں میں مہینوں قیام کرتے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے۔
اس دور میں کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، چھاپا خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ان کتب خانوں میں کاتبوں کے لیے الگ انتظام تھے، جہاں وہ نئی کتابوں کی نقلیں تیار کرتے رہتے۔ ایک کتب خانہ سیکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوتا اور اس میں لوگوں کا اتنا ہجوم ہوتا کہ موجودہ دور کے شاپنگ مال میں بھی نہیں ہوتا ہوگا۔ حکومت کی مکمل اور بھرپور سرپرستی میں تصنیف وتالیف، کتابوں کی تیاری اور مطالعہ کا شوق عروج پر پہنچ گیا۔ چنانچہ اسی ذوق و شوق کی وجہ سے مسلمانوں نے سات آٹھ سو سال پوری دنیا پر حکمرانی کی۔ نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ علمی و تحقیق لحاظ سے بھی مسلمانوں نے دنیا پر علمی ترقی کے نئے نئے راستے کھول دیے۔ جب کتاب طاق میں اور تلوار میوزیم میں رکھ دی تو غلامی کا تاریک دور شروع ہوگیا۔ عیش وعشرت میں کتاب کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وقت کی رفتار بدلنے کے لیے لوگوں ہی کو اٹھنا پڑتا ہے، انسان کی ہمت اور حوصلے کے سامنے تو دریا بھی اپنا رخ بدل دیتے ہیں۔ ترقی کے لیے ماضی میں بھی کتاب شرط اولیں تھی اور اب بھی ہے، اس کی ابتداء الکتاب یعنی قرآن کریم سے کرنا ہوگی۔